یہ بات باعث اطمینان ہے کہ خطے میں سکیورٹی کے استحکام کو یقینی بنانے کیلئے ہمسایہ ممالک مشاورت کومسلسل ترجیح دیتے چلے آ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں ایران کے صدر ابراہیم ریئسی ، تاجکستان کے صدر امام علی رحمن ، ازبکستان کے صدر شوکت مرزا ایوف ، بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینو اور قازقستان کے صدر قاسم جمرات توکایوف سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی، جس میں طالبان کی حکومت سے متعلق تفصیلی صلاح مشورے کئے گئے جبکہ عمران خان نے کہا کہ وژن وسطی ایشیا پالیسی کے تحت تمام متعلقہ ممالک سے تعلقات میں خلوص اورگرم جوشی سب کیلئے فائدہ مند ہوگی،طے پایا کہ پشاور ، جلال آباد ، کابل ،تُرمزار اور مزار شریف کو ملانے کیلئے ٹراٹس افغان ریلوے منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ افغان امن مشن کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
عالمی برادری کو افغان عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو کر انسانی بحران کو ٹالنے اورمعیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ بین الاقوامی برادری افغان عوام کی مدد ،انسانی ضروریات کو بروقت پُورا کرنے اور معیشت کے استحکام کی غرض سے اقدامات اٹھانے کیلئے رابطے جاری رکھے۔
دریں اثناء دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم اور سی ایس ٹی او کے سربراہی اجلاسوں کے انعقاد کے موقع پر روس ، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ اور ایران کے نائب وزیر کی اہم ملاقات ہوئی ہے۔ شرکاء نے افغانستان اور مجموعی طور پر خطے میں امن ، سلامتی اور استحکام کے فروغ کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور افغانستان میں پُر امن زندگی کی بحالی اور معیشت کو فعال کرنے کی ضرورت پرزور دیا ۔اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے روسی ہم منصب سر گئی لارؤف نے بھی ملاقات کی ۔شاہ محمودقریشی نے کہا اس نازک مرحلے پر افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے کابل میں پیدا ہونے والی صُورت حال کے حوالے سے خود امریکی ذرائع سے سامنے آنے والی تفصیلات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ امریکہ اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا تو افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کا معاملہ پُرامن طورپر طے پا سکتا تھا۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلا نے اشرف غنی اور دیگر کو لوٹ مار کے مواقع فراہم کیے اگر طالبان آگے بڑھ کر حالات پر قابو نہ پاتے تو تاریخ کی بدترین لوٹ کھُسوٹ سامنے آتی ۔
امریکی اقدامات اور پالیسیاں یہ بتانے کو کافی ہیں کہ امریکہ کا فوری انخلا بھی کابل میں بد امنی کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جسے طالبان نے بہتر حکمت عملی سے ناکام بنا دیا ۔
اب بھی امریکہ کی جانب سے خطہ کو بد امنی کا شکار بنانے اور چین کی سرحدوں پر جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوششیں نظر آ رہی ہیں۔ دو روز قبل جب دوشنبہ میں پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسی ممالک سر جوڑے افغان بحران سے نمٹنے پر غور کر رہے تھے تو امریکہ کی قیادت میں عالمی امن کیخلاف ایک بڑی سازش کے تانے بانے بنے جا رہے تھے ،جس میں امریکہ ،بھارت ،آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔امریکہ نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے حلیفوں میں ایٹمی آب دوزیں تقسیم کرنے کا بھی اعلان کیا، جس کی دنیا بھر میں شدیدمذمت کی جا رہی ہے۔
امریکہ کے ایسے اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ افغانستان میں ذلت آمیز شکست سمیٹنے کے بعد بھی امریکی سازشیوں کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے اور وہ ایک بار پھر اپنی سرشت کے مطابق افغانستان میں امن اور ترقی کیخلاف سازش کرتے ہوئے امن اور ترقی کی اجتماعی کوششوں کے خلاف جنگ جیسا ماحول پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔
ان حالات میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بشمول چین کو چاہیے کہ وہ اب ملاقاتوں اور مشاورت کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے، افغانستان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے میں تاخیر نہ کریں۔جب تک خطہ کے ممالک افغانستان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے میں پس وپیش سے کام لیتے رہیں گے، امریکی سازشوں کا جال پھیلتا جائے گا۔
طالبان اس وقت افغانستان کی سب سے بڑی حقیقت ہیں ،انہیں تسلیم کرنے کے بجائے افغانستان کے شکست خوردہ اور کرپٹ عناصر کو دوبارہ شریک اقتدار کرنے کیلئے دبائو ڈالنا از خود غیر منصفانہ اقدام ہے۔ لاز م ہے کہ خطہ کے تمام ممالک طالبان پر دبائو ڈالنے کے بجائے انکے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیںاور بیانات کے بجائے عملی طورپر افغان عوام کو بھوک اور افلاس سے بچانے کی کوشش کریں،جو حکمران اپنے ممالک میں سیاسی حریفوں کو برداشت کرنے کوتیار نہیں، ان کی جانب سے طالبان سے دو دہائیوں تک برسر پیکار رہنے والے دشمنوں کو شریک اقتدار کرنے کا مطالبہ سیاسی عقل ودانش کے منافی ہے۔طالبان کی جانب سے اپنے حریفوں کو معاف کر دینا ہی چھوٹی بات نہیںتھی کہ اب ان سے اپنے دشمنوں کو اقتدار میں شریک کرنے کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اگر یہ ضد چھوڑ کر خطہ کے ممالک نے افغان امن عمل کو یقینی بنانے کیلئے حقائق کی روشنی میں بروقت فیصلے نہ کیے اور امریکی دبائو میں وقت ضائع کر دیا تو اس سے صرف افغانستان ہی نہیں، پُورے خطے کا امن پھر سے خطرات کی نذر ہو جائیگا اور یوں خطے میں تعمیروترقی کے خواب ادھورے رہیں گے ، افغان امن عمل کیلئے ہمسایہ ممالک میں مشاورت اور مذاکرات کے بہت دور ہو چکے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک افغان حکومت کو تسلیم کریں جو کہ نہ صرف انکے اپنے مفاد میں ہے بلکہ اس فیصلہ سے امریکہ اور بھارت کا از سر نو پھیلایا جانے والا سازشوں کا جال ٹوٹ جائیگا اور خطے میں امن یقینی ہو سکے گا۔