اسلام آباد (خبرنگار‘ نوائے وقت رپورٹ) عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان میں دوسری آفت کا خطرہ منڈلا رہا ہے جو مختلف وبائی امراض سے بیماریوں اور اموات کی صورت میں ہوگی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ٹیڈروس نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مختلف جان لیوا وبائوں کے پھیلائو سے خبردار کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں سربراہ عالمی صحت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب کے بعد ایک اور ناگہانی آفت وبائی امراض کے پھوٹنے اور ان سے ہونے والے جانی نقصان کی صورت میں سر اٹھا سکتی ہے۔ سربراہ عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے سیلاب زدگان کے لیے 10 ملین ڈالر کی امداد کی اپیل جاری کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے دو ہزار سے زائد صحت کے مراکز تباہ ہوگئے جس سے وبائی امراض سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ سیلابی پانی تاحال کئی علاقوں میں کئی کئی فٹ موجود ہے جس سے ڈینگی، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور جلد کی بیماریوں کا بڑے پیمانے پھیلائو کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اپنے بیان میں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے مخیر افراد پر زور دیا کہ وہ زندگیاں بچانے اور سیلاب زدگان کو مزید مصائب سے بچانے کیلئے کھلے دل سے امداد کرتے رہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سیلاب زدہ علاقوں میں پانی کی سپلائی معطل ہے جس کی وجہ سے لوگ غیرمحفوظ پانی پینے پر مجبور ہیں جو ہیضہ اور دیگر بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ گندا پانی مچھروں کی افزائش گاہ بن جاتا ہے اور ملیریا‘ ڈینگی جیسی ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیلاتا ہے۔ دوسری جانب محکمہ صحت سندھ نے کہا ہے کہ یکم جولائی سے اب تک صوبے بھر کے مختلف میڈیکل کیمپوں میں مجموعی طورپر 25 لاکھ مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ سندھ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی رپورٹ کے مطابق جلدی بیماریوں کے 5 لاکھ 94 ہزار 24 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ اس کے بعد ڈائریا (5 لاکھ 34 ہزار 800)‘ ملیریا (10 ہزار 702)‘ ڈینگی (ایک ہزار 401) اور دیگر امراض میں مبتلا(12 لاکھ 64 ہزار 50 مریضوں) کا علاج کیا گیا ہے۔ رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 90 ہزار 398 مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں سے 17 ہزار 919 کو ڈائریا‘ 19 ہزار 746 کو جلد کی بیماری‘ 595 کو ملیریا اور 388 کو ڈینگی تھا۔ سندھ میں وبائی امراض تشویشناک حد تک بڑھ گئے۔ سانس‘ دمہ اور سینے کی بیماریوں کے 12 ہزار سے زیادہ کیسز ہیں۔ 20 ہزار کے قریب افراد جلدی امراض میں مبتلا ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق ڈائریا کے 17 ہزار 919 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ملیریا کے مزید 2 ہزار اور ڈینگی کے 64 مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پونے 26 لاکھ مریض رپورٹ ہوئے ہیں جو مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے بھی پاکستان میں ہنگامی امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب میں گھرے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ یونیسف کے مطابق تقریباً 34 لاکھ سیلاب زدہ بچے فوری امداد کے منتظر ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ سیلاب میں پھنسے بچوں کو بھوک کے ساتھ بیماریوں نے گھیر لیا ہے۔ ملیریا اور ڈینگی کے ساتھ پیٹ کے امراض ان پر حملہ آور ہیں۔ یونیسف نے کہا کہ بچے اور بچیاں اس موسمیاتی تباہی کی قیمت چکا رہے ہیں، جس میں وہ حصے دار ہی نہیں ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ بچوں کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہو کر دودھ پلانے سے بھی قاصر ہیں۔ بلوچستان میں متاثرین خوراک اور دوائوں کے لیے پریشان پھر رہے ہیں۔ اپنی چھت دوبارہ قائم کرنا جوئے شیر لانے جیسا ہو گیا۔ ریلیف کیمپوں میں بھی صحت کے مسائل سنگین ہو گئے۔ اکیس روز میں میرپور ماتھیلو میں ملیریا اور گیسٹرو سے 13 بچوں سمیت 15 افراد جاں بحق ہو گئے۔ نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار ہے۔ جیکب آباد میں بھی گیسٹرو اور ملیریا کے باعث 2 بچوں سمیت 3 افراد جاں بحق ہو گئے۔ خیبر پی کے میں بھی بارشوں اور سیلاب سے بڑی تباہی ہو چکی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے۔ بنوں میں بارش نے پھر قیامت ڈھا دی ہے۔ دوسری جانب حالیہ بارشوں و سیلاب سے انفراسٹرکچر کی تباہی پر این ڈی ایم نے یومیہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹے میں ملک بھر میں 8958 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 13 ہزار سے زائد گھروں کو مکمل نقصان پہنچا۔ اب تک 11 لاکھ 44 ہزار 787 گھروں کو جزوی طورپر نقصان ہوا۔ بارشوں اور سیلاب سے 778560 گھر مکمل طورپر تباہ ہوئے ہیں۔