تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری کے ساتھ میرے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ باہمی ملاقاتیں اگرچہ بہت کم ہوتی ہیں۔وہ عالمی اور دفاعی امور کی کئی برسوں تک اُستادرہی ہیں۔ ان کے تجربہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے امید تھی کہ وہ اپوزیشن جماعت کی صف اوّل میں شامل رہنما کی حیثیت میں کسی اخبار میں تفصیلی مضمون لکھیں گی۔اس کے ذریعے ایس سی او (شنگھائی کونسل برائے تعاون) کی افادیت کے بارے میں ٹھوس سوال اٹھاتے ہوئے غالباََ اس نتیجے تک پہنچ پاتیں کہ ہمارے وزیر اعظم کو اس کے سالانہ اجلاس میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا۔بہتر یہی ہوتا کہ وہ مذکورہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کے اظہار کے بعد اپنی توجہ ملک میں آئے سیلاب سے ہونے والی تباہیوں کا حل ڈھونڈنے تک مرکوز رکھتے۔
ہمارے دیرینہ دوست چین کی پیش قدمی کی بدولت قائم ہوئے مذکورہ اتحاد میں وسطی ایشیاء کے تمام ممالک کے علاوہ بھارت اور پاکستان بھی شامل ہوچکے ہیں۔ایران بھی اس برس باقاعدہ رکن تسلیم کرلیا گیا ہے۔تاریخی وجوہات کی بنا پر ترکی اس تنظیم میں کئی برسوں سے متحرک ہے۔وسطی ایشیائ،ترکی اور ایران کی چین اور روس سے قربتیں تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے بآسانی سمجھی جاسکتی ہیں۔پاکستان بھی اس تناظر میں اہمیت کا حامل ہے۔بھارت کی اس تنظیم میں شرکت تاہم بہت کاوش کے باوجود میں ابھی تک سمجھ نہیںپایا ہوں۔
میری اس رائے کو ’’تعصب‘‘ قرار دے کر ٹھکرایا جاسکتا ہے۔تاریخی اور جغرافیائی حقائق لہٰذا نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس تنظیم کے عنوان میں شامل’’تعاون‘‘ پر اگرچہ توجہ دلانا اب بھی لازمی تصور کرتا ہوں۔یہ حقیقت جاننے کے لئے آپ کو عالمی سطح پر دھانسو مانی کسی ایسی یونیورسٹی کا ڈگری یافتہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ مذکورہ تنظیم میں شامل بھارت کے تعلقات اس تنظیم میں شامل دو ممالک یعنی پاکستان اور چین سے دوستانہ نہیں بلکہ مخاصمانہ ہیں۔چین اور بھارت کے مابین 1962ء میں ایک جنگ بھی برپا ہوچکی ہیں۔دونوں ممالک کے مابین اس کے بعد بالآخر 1980ء کی دہائی کے آخری سالوں میں تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے۔1990ء کی دہائی میں وہ گہرے تر ہونے کی جانب بڑھنے لگے۔باہمی تجارت کا حجم آسمان کو چھونے لگا۔رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی مگر ان دونوں ممالک کو وہ سرحدی تنازعہ یاد آنا شروع ہوگیا جو درحقیقت برطانوی سامراج کے دنوں میں ’’ہند‘‘ اور چین کے مابین ’’سرحد‘‘ طے کرنے کی خاطر شروع ہوا تھا۔اس حوالے سے اپنی ’’حد بندی‘‘ اجاگر کرنے کے لئے دونوں ممالک بسااوقات اپنی افواج کو جارحانہ انداز میں متحرک بھی بنادیتے ہیں جو خوفناک جنگ کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کئی جنگیں برپا ہوچکی ہیں۔آخری جھڑپ 2019ء کے آغاز میں ہوئی تھی جب بھارتی جنگی طیارے ہمارے بالا کوٹ میں درآئے تھے۔ اس کی وجہ سے جو خونخوار جنگ ہوسکتی تھی اسے ایس سی او کی کاشوں کی بدولت ہرگز ٹالا نہیں گیا تھا۔ٹرمپ کے امریکہ اور سعودی عرب نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا۔جنگ تو ٹل گئی مگر اس کے بعد اگست 2019ء میں نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی ’’خودمختاری‘‘ چھین کر اسے دو حصوں میں بانٹ دیا۔دونوں حصوں میں ان دنوں دلی سے براہ راست حکومتی انتظامیہ چلائی جارہی ہے۔مذکورہ اقدام کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین معمول کے سفارتی اور تجارتی تعلقات بھی برقرار نہیں رہے۔ ایسے عالم میں ’’تعاون‘‘ کے نام پر ہوئی ایک تنظیم کے اجلاس میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی شمولیت مجھ جاہل کو محض منافقت ہی نظر آئی ہے۔یہ منافقت اس حقیقت کے تناظر میں مزید ٹھوس محسوس ہوئی کیونکہ ازبکستان کے تاشقند میں ہوئی کانفرنس کے دوران پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کی موجودگی کو نظرانداز کئے رکھا۔
عالمی امور سے قطعی نابلد مجھ جیسے سادہ لوح نے ایس سی او کی حالیہ کانفرنس کے بارے میں جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ کی عالمانہ دانش کی توجہ کے مستحق مگر ہونہیں پائے۔ہفتے کے دن بلکہ وہ انتہائی خوشی سے امریکی ٹیلی وژن کے ایک پروگرام سے اٹھائی ایک کلپ سوشل میڈیا پر پھیلاتی رہیں۔ جو کلپ انہوں نے لگائی تھی اس میں امریکی ٹی وی کے ایک مشہور مسخرے نے وزیر اعظم پاکستان کا مذاق اڑایا تھا جنہیں روسی صدر پوٹن کے ساتھ ون آن ون ملاقات کے دوران یہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ اس آلے کو اپنے کان میں کیسے ٹھونسیں جن کی بدولت وہ پوٹن کی گفتگو کا ترجمہ سن سکتے تھے۔معاونین کی مدد بھی اس ضمن میں کام نہیں آئی۔پوٹن سے گفتگو کے دوران وہ آلہ ان کے کان سے مسلسل گرتا رہا۔امریکی مسخرے نے اس ضمن میں ان کی خوب بھد اڑائی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری اس بھد سے بہت لطف اندوز ہوئیں۔شہبازشریف کو ’’کرائم منسٹر‘‘ پکارتے ہوئے اسے سوشل میڈیا پر چڑھادیا۔
شہباز شریف کا مذاق اڑا تو ان کی جماعت کے چند حامیوں نے ایک اور امریکی مخولیے کی وہ کلپ ڈھونڈلی جس کے ذریعے وہ ہمارے عمران خان صاحب اور اپنے صدر ٹرمپ کے مابین ایسی مماثلتیں تلاش کرتا رہا تھا جو دونوں کے ’’اخلاقی معیار‘‘ پر طنزیہ سوالات اٹھانے کا سبب بتائے گئے۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ (نون) کے حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر یوں ایک جنگ چھڑگئی جو ثابت کرنا چاہ رہی تھی کہ ان میں سے کس کے لیڈر کا امریکی مسخروں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں بہتر ’’توا‘‘ لگایا تھا۔سوشل میڈیا پر یوں رونق لگ گئی۔ اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم میں سے کسی نے وہ سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس ہی نہ کی جن کی جانب اس کالم کے آغاز میں مجھ جیسے بے اثر رپورٹر نے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مذکورہ کانفرنس میں نیم دلی سے شرکت کی۔اس کا تاشقند میں قیام بھی دیگر غیر ملکی رہ نمائوں کے برعکس مختصر رہا۔مودی کے شدید ناقد تصور ہوتے ہوئے بھارتی صحافیوں نے تاہم اس پہلو پر توجہ دلاتے ہوئے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ تاشقند کانفرنس میں ایسی نیم دلانہ شراکت کے لئے سرکاری وسائل کا زیاں کیوں ہوا۔وہاں گئے تمام بھارتی صحافیوں نے البتہ یکسوہوکر دنیا کو یہ پیغا م دینا چاہا کہ مذکورہ کانفرنس کے دوران ان کے وزیر اعظم نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے بارے میں ’’تشویش‘‘ کا اظہار کیا ہے۔اس پیغام کا واحد مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بتانا تھا کہ روس سے مستقل سستے داموں تیل خریدنے کے باوجود ان کا ملک پوٹن کی یوکرین کے خلاف برپا کی جنگ کے بارے میں ’’خوش‘‘ نہیں ہے۔’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں ہوئی ’’مثبت صحافت‘‘ کا یہ ٹھوس اظہار تھا۔ ہم مگر اپنے وزیر اعظم کو ’’کرائم منسٹر‘‘ پکارتے ہوئے خوش ہورہے ہیں اور شاداں ہیں کہ ایک امریکی مسخرے نے بھی دریافت کرلیا ہے کہ انہیں اپنے کان میں ترجمہ سنانے والا آلہ بھی لگانا نہیں آتا۔