" شنگھائی تعاون تنظیم اور ہماری توقعات "

پاکستان اور روس کے سفارتی اور تجارتی تعلقات شروع ہی سے اتار چڑھائو سے دوچار رہے ہیں البتہ انیس سو ستر کے عشرے میں کچھ ٹھہرائوایا تھاجس کی بدولت پاکستان سٹیل ملز کی تعمیر عمل میں آئی ۔بعد ازاں سوویت جنگ ، افغان خانہ جنگی اور دہشت گردی کے حالات خطے پر غالب رہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑی حد تک خلیج قائم رہی ۔جمعرات کے روز ازبکستان کے دورے کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کی روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ملاقات کے تناظر میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان اس وقت توانائی کے جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا انتباہ ارضیاتی ماہرین گزشتہ دو دہائی سے کرتے چلے آ رہے ۔پاکستان کے پاس اس وقت مختلف آپشن موجود ہیں۔ ایران ایک سابق معاہدے کے تحت پاکستانی سرحد تک گیس کی سپلائی مستقبل قریب میں دینے کو تیار ہے ۔ ترکمانستان سے افغانستان کے راستے گیس پاکستان اور اس سے آگے بھارت تک پہنچانے کا ایک منصوبہ (تاپی)سرد خانے میں پڑا ہے بعض دوسرے وسطی ایشیائی ممالک بھی پاکستان کو توانائی کے منصوبے فراہم کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں جبکہ روس سے قدرتی گیس حاصل کرنے پر بڑی حد تک پیش رفت ہو چکی ہے رواں سال فروری میں  سابق وزیر اعظم عمران خان کے دوررہ ماسکو کے بعد 15 ستمبر کو جب وزیر اعظم شہباز شریف شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے با ئیسویں سربراہی اجلاس کے موقع پر ازبکستان کے شہر سمرقند میں موجود تھے ان سے ایران، بیلا روس ، تاجکستان، ازبکستان اور روس کے صدور کی ملاقاتیں ہوئیں اور دو طرفہ امور پر الگ الگ بات چیت ہوئی ۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں جہاں پاکستانی قیادت نے غذائی تحفظ ،تجارت و سرمایہ کاری ،توانائی، دفاع اور سیکورٹی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کیلئے روس کے ساتھ ملکر کام کرنے کیعزم کا اعادہ کیا اسی دوران روسی صدر نے انکشاف کیا کہ روس کے پاس پاکستان کو گیس کی فراہمی کا انفرا اسٹرکچرپہلے سے موجود ہے جس کی رو سے یہ منصوبہ قابل عمل ہے۔ یاد رہے کہ دوہزارپچیس میں نواز شریف کے دور میں پاکستان اور روس کے درمیان دو ارب ڈالر کی لاگت سے قازقستان، ازبکستان اور افغانستان کے راستے 1100کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ ہوا تھا جسے دسمبر دوہزارسترہ میں مکمل ہو جانا تھا بعد ازاں یہ پروگرام بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ رواں برس دونوں ملکوں میں سربراہی سطح پر اسے آگے بڑھانے پر بات چیت ہوئی ہے جو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ اس وقت ملک کا گھریلو سطح سے لیکر صنعتی پہیہ رواں دواں رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ برآمدی شعبہ متاثر ہو رہا اور ڈالر آنے کی بجائے ملک سے باہر جا رہا ہے۔اس وقت یورپی ملکوں کو ملنے والی کل گیس کا ایک تہائی حصہ روس سے آ رہا ہے۔ ان میں بارہ ممالک ایسے ہیں جن کی آدھی ضروریات اسی سے پوری ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر روس سے سستی گیس کی درآمدہر لحاظ سے قابل عمل ہے تو اس کام میں مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہئے. 
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان سمرقند میں ہونے والی ملاقات میں پیوٹن نے کہا ہے کہ پاکستان کو پائپ لائن سے گیس سپلائی ممکن ہے۔پاکستان کو گیس سپلائی روس، قازقستان اور ازبکستان کے پہلے سے بنے انفرااسٹرکچر سے ممکن ہے، پاکستان میں ایل این جی فراہمی کے لیے انفرااسٹرکچرکی تعمیر بھی قابل توجہ ہے، پاکستان کو جنوبی ایشیا میں روس کے اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ پاک روس تعلقات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ روس پاکستان کے تعلقات میں معاشی اور تجارتی شعبوں میں تعاون بہت اہم ہے۔روسی صدر نے پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے ہونے والے جانی نقصان پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید امداد بھیجنے کا عندیہ بھی دیاہے. وزیراعظم نے روس کی جانب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے اظہار یکجہتی اور حمایت پر صدر پیوٹن کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے روسی صدر کے ساتھ پاکستان میں سیلاب کی آفت کے تباہ کن اثرات کی تفصیلات بھی شیئر کیں۔ پاکستان روس تعلقات کی بہتری پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم پر مبنی ہیں۔پاکستان کے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔دونوں ممالک کے فوڈ سکیورٹی، تجارت اور سرمایہ کاری،توانائی، دفاع اور سکیورٹی سمیت باہمی فائدے کے تمام شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق بھی دیا گیا۔ملاقات کیاعلامیہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات خطے، بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا. وزیراعظم نے روسی صدر کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جبکہ ماسکو کیساتھ خوراک، سلامتی، تجارت و سرمایہ کاری، توانائی کے شعبہ میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیاگیا.شہباز شریف نے روس کے افغانستان میں تعمیری کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پْرامن اور مستحکم افغانستان روس اور پاکستان کے مفاد میں ہے۔ مستحکم افغانستان کیلئے، خطے اور بین الاقوامی سطح پر ہر ممکن حمایت جاری رکھی جائے گی. ملاقات کے دوران جو ایک اچھی پیش رفت سامنے آئی وہ یہ ہے کہ ولادیمیر پیوٹن نے بین الحکومتی کمیشن کا آئندہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد کرنے پر اتفاق کیا. وزیر اعظم کی روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے علاوہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سمیت تاجکستان اور ازبکستان کے صدور سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں. وزیر اعظم آفس کیمیڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دوسری طرف وزیراعظم نے ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف سے ملاقات کی ہے۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا. یہ تمام ملاقاتیں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سمرقند میں ہوئی ہیں جس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ،وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بھی ہمراہ تھے۔شہباز شریف نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات میں خطے کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کی صورتحال پر بات چیت کی ۔
سیلاب کی تباہ کاریوں پر ایرانی صدرنے اظہارافسوس کیا جبکہ وزیراعظم نے سیلاب متاثرین کے لیے امداد بھیجنے پر ایرانی صدرکا شکریہ ادا کیا۔اْدھر وزیراعظم نے سمر قند میں خضر کمپلیکس کا دورہ بھی کیا اور ازبکستان کے بانی رہنما اسلام کریموف کے مزار پر حاضری دی۔
واضح ہو کہ رواں سال میں روسی صدر سے پاکستان کے یہ دوسرے وزیراعظم کی ملاقات ہے کیونکہ اسی سال فروری میں عمران خان نے یوکرین روس جنگ سے قبل روس کا دورہ کیا تھا اور صدر پوٹن سے ملاقات کی تھی اور اسی سال اب ستمبر میں محض سات مہینوں میں یہ پاکستان کے دوسرے سربراہ کی ملاقات ہے. اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان روس کے لئے اور روس پاکستان کے لئے بہت اہمیت ہیں.

ای پیپر دی نیشن