ضعیف الاعتقادی کے کانٹے

Sep 19, 2022

یہ جون 1997 کی بات ہے۔ میرے ایک  میجر دوست جوکوسٹ گارڈ میں تعینات تھے ان کے خاندان کے افراد ساحل سمندر پکنک منانے گئے۔ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ تین نوجوان لڑکے چہل قدمی کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ جب بہت دیر تک واپس نہ آئے تو گھر والوں کو فکر ہوئی اور انہیں ڈھونڈنا شروع کر دیا لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔  آگے خطرناک چٹانیں تھیں اور غالب امکان تھا کہ ان کو وہاں حادثہ پیش آیا اور کوئی دیکھ بھی نہ سکا۔ ڈھونڈتے ہوئے دوپہر سے شام اور پھر رات ہو گئی۔ سب افراد وسیع و عریض ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے بے بس نظر آئے ۔ خواتین نے واپس جا کر وظائف کا ورد شروع کر دیا۔ اسی اثناء میں محلے کی ایک خاتون اپنے پیر صاحب کے پاس یہ مسئلہ لے کر چلی گئیں۔ پیر صاحب نے فرمایا کہ بچے ڈوبے نہیں بلکہ اغوا ہوئے ہیں اور انہوں نے ایک جھونپڑی نما قید خانے کا نقشہ بھی کھینچ دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی مزید تین چار افراد اپنے اپنے پیروں کے پاس چلے گئے۔ سب نے اپنے علم اور عمل کے مطابق بچوں کو کہیں نہ کہیں زندہ دکھایا۔ میرے دوست ان باتوں پر یقین نہ رکھتے تھے لیکن جب سب پیروں نے ایک ہی بات کی تو وہ بھی ڈانواڈول ہوگئے۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ارد گرد کا تمام علاقہ کھنگال ڈالا۔ بعد ازاں وہ  ایس ایس پی کے پاس گئے اور کہا کہ چونکہ سب پیر حضرات بچوں کے اغوا کی بات کر رہے ہیں تو اس میں کچھ تو وزن ہے۔ انہوں نے بعد ازاں یہ بات مجھے خود بتائی کہ ایس ایس پی صاحب نے ان کی بات سن کر کچھ نہ کہا مگر انہوں نے پولیس آفیسر کی زیر لب مسکراہٹ کو محسوس کیا۔ وہ شاید ان کی سادگی پر ہنس رہا تھا۔ اگر پیروں فقیروں نے ہی تمام گم شدہ واقعات کی کڑیاں سلجھانی ہوتیں تو تھانے بند ہو جانے چاہئیے یا کم از کم ہر تھانہ میں ایک پیر کی بھی آسامی ہونی چاہئیے۔ قصہ مختصر بعد میں معلوم ہوا کہ تینوں نوجوان سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے تھے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بعد میں بھی یہ جعلی پیر باز نہ آئے اور غم زدہ گھر والوں کے زخموں پر الٹی سیدھی باتیں کرکے نمک چھڑکتے رہے۔
کچھ اسی قسم کے ایک انسپکٹر سے میرا بھی کوہلو (بلوچستان) میں واسطہ پڑا۔ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا وہ اس کو پیشہ ورانہ انداز میں حل کرنے کی بجائے اپنے پیر کے پاس چلا جاتا۔ وہ پیر ڈرامائی انداز میں اس کو کسی پراسرار جگہ کا پتہ بتاتا جو کبھی نہیں ملتا اور نہ ہی مسئلہ حل ہوتا۔ لیکن ایک تو ایس ایچ او  بہت ہی ضیعف العتقاد تھے دوسرا پیر صاحب کا انداز بہت جاندار ہوتا کہ معاملہ یوں ہی چلتا رہا۔ میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی نہ اتار سکا۔
اعتقاد کی کمزوری اور توہم پرستی اَن پڑھ لوگوں میں تو عام ہے ہی لیکن پڑھے لکھے لوگ بھی اس جہالت سے مبرّا نہیں۔ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اکثر ہم پرانی کہانیوں میں پڑھتے کہ فلاں علاقہ کے لوگ دیوتاؤں کو خوش یا راضی کرنے کے لئے جوان اور کنواری لڑکیوں کی بھینٹ چڑھاتے تا کہ قدرتی آفات سے محفوظ رہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی انداز میں کہیں نہ کہیںچل رہا ہے۔ پاک و ہند اور افریقہ کی سرزمین تو اس کے لئے بہت زرخیز ہے لیکن چین و روس جیسے سیکولر ممالک اور امریکہ جیسی ترقی یافتہ تہذیب بھی پیچھے نہیں۔ Exorcist جیسی مشہور زمانہ فلم جس میں ایک لڑکی پر جن چڑھ گیا تھا، ہالی ووڈ میں ہی بنائی گئی تھی اور اب بھی Zombie جیسی فلمیں دھڑا دھڑ بن رہی ہیں۔ زار روس کا شاہی خاندان اور امراء کی تمام خواتین راسپوٹین کی دیوانی تھیں۔ اس نے کوئی ایک آدھ غیرمعمولی عمل کر کے بادشاہ کے گھر والوں کو شیشے میں اتار لیا اور پھر اتنا طاقتور ہوا کہ تمام اہم فیصلے اس کے مشورے سے کئے جاتے۔ بعد ازاں وہ نہ صرف خود مارا گیا بلکہ بادشاہ کے زوال کا بھی سبب بنا۔ ہمارے ہاں بھی سربراہان مملکت کے متعلق بھی خبریں آتی رہیں کہ وہ فلاں پیر کے مشورے سے امور مملکت چلاتے رہے۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی پیر کسی کی بھی حکومت نہ بچا سکا۔   
ہمارے ہاں کچھ توہمات بھی بہت عام ہیں۔ مثلاً نظر اتارنے کے لئے مرچوں کی دھونی دینا، گاڑی کے پیچھے بچے کا جوتا لٹکانا، زیادہ عرصہ تک خالی رہ جانے والے گھر پر آسیب کا اثر ہونا، نئی نویلی دلہن کو اس لئے منحوس قرار دے دینا کہ اس کے آنے کے فوراََ بعد شوہر کی نوکری چلی گئی یا اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ امریکہ اور کینیڈا جیسے ر و شن خیال ممالک میں عمارتوں میں اکثر تیرہویں منزل نہیں ہوتی، ان کے نزدیک 13 نمبر منحوس ہے۔ نہ لوگ اس میں آفس بناتے نہ ہی گھر۔ اس کا توڑ یوں نکالا گیا کہ 12 کے بعد آنے والی منزل کو  12A قرار دے دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ ان توہمات پر اعتقاد رکھتے ہیں ان کے ساتھ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ ان کا یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ 
کوئٹہ میں شروع سروس کے دنوں میں دوران گشت ڈرائیور نے اچانک بریک لگا دی اور آگے جانے سے انکار کر دیا کہ کالی بلی راستہ کاٹ گئی تھی۔ میں نے بہت سمجھایا مگر وہ  ٹَسْ سے مَسْ نہ ہوا۔ میری سروس ابھی شروع ہوئی تھی لہذا زبردستی نہ کر سکا، ہم واپس آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ جس جگہ سے ہمیں گزرنا تھا وہاں بم کا دھماکہ ہوگیا اور یوں ڈرائیور اپنی ذہانت و فراست پر شاداں دکھائی دیا۔ میری ایک ڈسٹرکٹ میں بطور ایس پی پوسٹنگ تھی کہ تبادلے کا آرڈر آگیا۔ نئے ایس پی صاحب نے اگلے دس روز تک آنے اور چارج لینے سے صاف انکار کردیا۔ حالانکہ اچھی پوسٹنگ تھی اور چارج نہ لینے کی صورت میں آرڈر کینسل ہونے کا بھی خدشہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کے نجومی کے مطابق اگلے دس روز تک ان کے ستارے سازگار نہ تھے۔ اور یوں انہوں نے اپنی جنم کنڈلی پر عمل کیا اور اگلے چار پانچ سال وہیں تعینات رہے اور اپنے نجومی کے قصیدے پڑھتے رہے۔  
کوئٹہ میں بطور اے ایس پی  پوسٹنگ عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے تھے۔ کبھی  جلے ہوئے  مقدس اوراق ملتے تو کبھی انسانی ہڈیاں۔ یہ کسی سفلی عمل کرنے کے واضح اشارے تھے۔ عوام میں شدید غم و غصہ اور تشویش پائی گئی۔ بہرحال ایک مشکوک آدمی کو قبرستان میں پرسرار حرکات کرتے
 ہوئے پکڑ لیا گیا۔ یہ نہایت گندا اور بدبو دار تھا۔ چہرے پر نحوست اور پھٹکار برس رہی تھی۔ میں ساری رات اس سے تفتیش کرتا رہا۔ وہ اپنے آپ کو کالے علم کا ماہر بتا رہا تھا اور میں اپنے آپ کو فلسفہ کا استاد سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں اس پر ہنس رہا تھا۔ صبح ہونے پر میں گھر چلا گیا کہ کچھ دیر آرام کر لوں۔ بیگم کو کہا کہ چولہے پر پانی گرم کریں کہ نہا لوں۔ ہمارے گھر میں اس زمانہ میں گیزر نہ تھا۔ اچانک کچن میں آگ بھڑک اٹھی اور خطرہ تھا کہ بڑھ کر پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ آگ بجھانے کے عمل میں تھوڑا سا ہاتھ میرا بھی جل گیا۔ پھر میں سونے کے لئے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب اٹھنا چاہا تو اٹھا نہ گیا۔ تیز بخار اور جسم میں شدید درد۔ ہسپتال میں پندرہ روز تک داخل رہا۔ معلوم ہوا کہ افریقہ میں پائے جانے والے مچھر کے کاٹنے سے ہونے والا cerebral malaria ہوا جو کہ انتہائی مہلک تھا۔ بہرحال جان جاتے جاتے بچی۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد بھی کئی روز تک گھر میں رہا۔ وہ مشکوک آدمی اور اس کا کالا جادو ذہن سے بالکل محو ہوگیا۔ جب دفتر گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو چند روز بعد ہی ضمانت پر رہا ہو گیا تھا پھر اس کا کہیں پتہ نہ ملا۔ میرے تمام جاننے والوں کو قوی یقین تھا کہ میری یہ حالت اس کے سفلی عمل کی وجہ سے ہوئی۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔   عموماًہسٹریا کے مریض کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ اس پر جن چڑھ گیا ہے کیونکہ دورہ پڑنے کی صورت میں نہ صرف ان کی آواز تبدیل ہوجاتی بلکہ طاقت میں بھی بے پناہ اضافہ ہو جاتا۔ ایک ماہر نفسیات سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی اس کو کسی مریض کے متعلق یقین ہوا کہ اس پر واقعی کسی قسم کا سایہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذہن پر بہت زور ڈالا اور پھر مسکرا کر نفی میں سر ہلا دیا۔  سائنس و مذہب دونوں ہمیں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جو بات سمجھ میں آجائے وہ سائنس، ورنہ جادو اور سایہ تو ہے ہی۔ ہاں جو مذہب کی اصل روح سے جڑ گیا وہ توہمات سے بچ گیا۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے 
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

مزیدخبریں