وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے سمر قند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان اجلاس میں خطاب کے بعد نیشنل اور انٹرنیشنل چنیلز اور اخبارات وجرائد تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں انسانی المیہ کے جنم کا خدشہ ظاہرکررہے ہیں۔ تین کروڑ 20 لاکھ شہریوں کی دوبارہ اپنے گھروں میں واپسی اور آباد کاری کے لیے 30 لاکھ ڈالرز کی فوری ضرورت ہے عالمی برادری کو سنجیدگی سے پاکستانیوں کی پکار سنی چاہیے۔ مقام شکر ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل دوروزہ دورے پر پاکستان آئے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وزٹ کے دوران اور متاثرین سیلاب کی دلجوئی کے لیے مہمان شخصیت انتونیو گوتریس نے جن خیالات اور جذبات کا اظہار کیا قوم انہیں قدر سے دیکھتی ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جنرل اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر پاکستان‘ سیلاب اور متاثرین کا ذکر ذمہ دارانہ انداز سے کیا ۔انہوں نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان کا تین چوتھائی حصہ پانی میں گھرا ہوا ہے۔ میںنے اپنی زندگی میں انسانوں کو اتنی بڑی تعداد کو پریشان ‘ بے چین اور بے کلی کی تصویر بنے نہیں دیکھا ۔امیر ممالک کو متاثرین کی خدمت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ،جناب انتونیوگریریس نے بااثر ممالک سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضہ معاف کر دیں ۔قرض معافی کی یہ نیکی اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان یکسوئی کے ساتھ متاثرین کی بحالی کے امور نبٹا سکے۔ہم سیکرٹری جنرل کی انسان دوستی کو سلیوٹ پیش کرتے ہیں۔ 3 کروڑ 20 لاکھ افراد کا کھلے آسمان تلے آجانا لمحہ فکریہ ہے یہ 1947ء سے بڑی ہجرت کا ماحول نظر آتا ہے۔ تاریخ شاید ہے 14 اگست 1947ء کو جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو آسمان نے ایک کروڑ افراد کی نقل مکانی کو دیکھا۔ آج کے حالات بھی اس بے بسی اور بے کلی کا منظر دکھا ئی دے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ کل سامراج سے ہم نبردآزما تھے اور آج ہمارا سامنا بپھرے ہوئے پانی سے ہے
بہت سی این جی اوز سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن بہت سوں کی خودنمائی بھی عادت بن چکی ہے کہ وہ امداد دیتے وقت ویڈیو بناکر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنانہیں بھولتے ۔سیلاب زدگان کی مدد ایک اچھا عمل ہے ،اللہ کی رضا کیلئے یہ سب ضرور کیجیے مگر خدارا ان بے بس و مجبور لوگوں کی عزتِ نفس کے ساتھ نہ کھلیں ۔سوچئیے! ساری زندگی کی جمع پونجی گھر بار سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہو چکاہے، وہ کس قدر بے بس اور لاچار ہیں اس وقت کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں ۔حضرت علی ؓنے فرمایا’’کسی کی تباہ حالی پر خوش نہ ہو ،خبر نہیں کل زمانہ تمہارے ساتھ بھی یہی برتاؤ کرے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے پاؤں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پاؤں بھی ایسے نہیں جمائے اور ان پر آسمان سے لگاتار مینہ برسایا اور نہریں بنا دیں جو ان کے (مکانوں کے) نیچے بہہ رہی تھیں پھر ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دیا اور ان کے بعد اور امتیں پیدا کر دیں ، ایل اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’(کیا کافر بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو، آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید کر رہا ہو، کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں ۔کہہ دو اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو ان کے لیے جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے، اچھا بدلہ ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے ۔بے
شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا ۔کہہ دو مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ عبادت کو اْس کے لیے خاص رکھوں اور مجھے یہ بھی حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلا فرمانبردار بنوں ۔
کہہ دو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں اگر اپنے ربّ کی نافرمانی کروں کہہ دو میں خالص اللہ ہی کی اطاعت کرتے ہوئے اْس کی عبادت کر تا ہوں ۔ پھر تم اْس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ۔کہہ دو خسارہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے جان اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے روز خسارہ میں ڈال دیا۔ یاد رکھو! یہ صریحاً خسارہ ہے اِن کے اوپر بھی آگ کے سائبان ہوں گے اور اْن کے نیچے بھی سائبان ہوں گے۔ یہی بات ہے جس کا ا للہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے ڈرتے رہو ‘‘۔متاثرین سیلاب کے لیے شبانہ روز خدمت کی شمع روشن کرنے پر قوم الخدمت فاؤنڈیشن ‘ جماعۃ الدعوہ‘ حکیم سہارن پوری فائونڈیشن، ایدھی فاؤنڈیشن اور ہلال احمر سمیت تمام فلاحی اداروں اور رضا کاروں کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے اس ضمن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی قابل رشک کردار ادا کیا وزارت اطلاعات ‘ پریس کلب اور اخبار نویس کمیونٹی کی یونینز بھی پوری طرح فعال رہیں۔ جڑواں شہروں میں عابد عباسی‘ افضل بٹ‘ شکیلہ جیل اور ڈاکٹرسعدیہ کمال جس سرگرمی سے متاثرین کی خدمت وراہنمائی میں مصروف ہیں انہیں دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہیں۔ اللہ پاک ان کی خدمت کو قبولیت کا درجہ دے ‘ آمین