پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنیوالے بھارت کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے ،اس کا احساس ہمیں شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلا س میں اس وقت ہوا جب بھارتی دفتر خارجہ کی پر ُزور کوشیشوں اور خواہش کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نرنیدرا مودی کی وزیر اعظم پاکستا ن سے ملاقات نہ ہو سکی اور بھارتی دفتر خارجہ کے اھلکار اپنا سا منہ لے کر واپس لوٹ گئے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ازبکستان کے دارالحکومت ثمر قند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار رہا اور ایک میز پر بیٹھے ہونے کے باوجود وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیراعظم نرنیدرا مودی کی آپس میں گفتگو نہ ہوسکی ۔بھارتی دفتر خارجہ کی بڑی خواہش تھی کہ دونوں راہنماؤں میں بات چیت ہو جائے مگر پاکستان کی طرف سے نہ تو بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات پر زور دیا گیا نہ ہی اس دورے کے ایجنڈے میں اسے شامل کیا گیا ۔واضع رہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ڈیڈ لاک 2019میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے بھارتی ریاست کا حصہ بنائے جانے کے مسلے پر پیدا ہوا تھا جس کے بعد پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلقات ختم کر دئیے تھے ۔یہ وہی بھارت ہے جس نے گذشتہ کافی عرصے سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک طرح سے قسم اُٹھا رکھی تھی کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرکہ ہی دم لے گا اور دیکھا جائے تو بھارت کو کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی جسے معمولی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بھارتیوں کی یہ قسم دم توڑتی دکھائی دینے لگی تھی اور اب حال یہ ہے کہ متذکرہ شنگھائی تعاون تنظیم تک بات پہنچتے پہنچے تو یہاں تک آن پہنچی کہ وہی بھارت جو کل تک پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی قسمیں اُٹھا چکا تھا آج وزیر اعظم شہباز شریف سے اپنے وزیراعظم نریندرا مودی کی ملاقات باوجود سخت منت سماجت کے کروانے میں ناکام ہو گیا اور وقت نے ثابت کر دیا کہ حق پر پاکستان ہی ہے نہ کہ بھارت ۔دوسری طرف اسی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران پاکستان کی قدر و منزلت پر نگاہ ڈالی جائے تو باوجود مالی طور پر کمزور ہونے کے اس کی علاقائی و جغرافیائی اہمیت میں کوئی کمی نہیں محسوس ہوئی بلکہ اس میں گذشتہ چار سالوں کے سابقہ حکومت کے غیر مناسب خارجی رویوں کے باوجود اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے جس کا اندازہ ہمیں وزیراعظم شہبازشریف سے چین روس ترکیہ سمیت دیگر علاقہ کے اہم ممالک کے سربراہاں سے ہونے والی ملاقاتوں اور اُن میں زیر بحث آنے والے معاملات سے بخوبی ہواہے جن کا تعلق علاقے کی اقتصادی معاشی اور تجارتی ترقی سے منسلکہ منصوبوں سے ہوا ہے جن میں خاص طور پر قدرتی گیس کے منصوبے شامل ہیں ،یہی نہیں بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے متذکرہ اجلاس میں جہاں پاکستان کی اہمیت نکھر کر سامنے آئی وہیں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی سیاسی و انتظامی بصیرت کا بھی عالمی راہنماؤں نے اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا جس کے حوالے کے طور پر چینی صدر شی جن پنگ کا بیان سامنے ہے جس میں انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں عملیت پسند اور محنتی وزیراعظم قرار دیا ۔وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی چینی صدر شی جن پنگ سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی جسے دونوں ملکوںکے باہمی دوستانہ تعلقات میں اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے جن کے بہتر نتائج سامنے آنے کی توقعات قوی ہیں ۔ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان میں حالیہ تباہ کن بارشوں اور سیلابی تباہ کاریوں پر چینی صدر کا شکریہ ادا کیا اور چین کے صوبے یچوان میں تباہ کن زلزلہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر چینی صدر سے اظہار افسوس بھی کیا ۔اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی جو چینی صدر نے قبول کرتے ہوئے جواب میں وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی دورہ چین کی دعوت دی جو انہوں نے بھی قبول کر لی ۔شنگائی تعاون تنظیم کے اسی اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے بھی ملاقات کی جس میں روسی صدر نے پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دیتے ہوئے پاکستان سے روس کے تعلقات مزید بہتر بنانے بلکہ پاکستان کو گیس کی فراہمی میں ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوے اسے ارزاں نرخوں پر گیس کی فراہمی کا اعادہ کیا ۔اس ملاقات میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو پائپ لائن سے گیس کی سپلائی ممکن ہے کیونکہ اس کا انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے ،ان کی مزید یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو جنوبی ایشیاء میں اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ اس امر سے خو ش ہیں کہ روس پاکستان تعلقات بہتر طور پر آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ دونوں ملکو ں کے مابین تجارتی اور معاشی شعبوں میں جاری منصوبوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جن سے و ہ امید رکھتے ہیںکہ روس اور پاکستان مزید ایکدوسرے کے قریب آئیں گے ۔پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات پر نظر ڈالی جائے تو شنگھائی تعاون تنظیم کے متذکرہ اجلاس میں دونوں ملک مزید ایکدوسے کے قریب آئیں ہیں ۔ترک صدر طیب اردگان نے بھی پاکستان کو خطے کا اہم شراکت دار قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپنی ہونے والے ملاقات کے دوران روس سے پائپ لائن کے زریعے پاکستان کو گیس کی فراہمی کے منصوبے پر کام کرنے پر ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اتفاق ظاہر کیا اور بتایا کہ روس قزاقستان اور ازبکستان میں کسی حد تک بنیادی ڈحانچہ پہلے سے موجود ہے جس سے با آسانی فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس دوران ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سمیت تاجکستان ،ازبکستان ،قازکستان،بیلا روس ،منگولیا،کرغستان کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جن میں تمام ملکوں کا فوکس پاکستان رہا جس دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ شہباز حکومت نے پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی کوشیشوں کے کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کی ناقص خارجہ پالیسی کے اثرات کو بھی زائل کر دیا ہے اور آج پاکستان تنہا نہیں بلکہ عالمی دوستوں کے جھرمٹ میں کھڑا دیکھائی دے رہا ہے جس سے اس کی خطے میں اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔