موسمیاتی تبدیلی دنیابھرکیلئے ایک خطرہ ہے 

وطن عزیز کا کا بیشتر حصہ اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے بری طرح متاثر ہے۔ بالخصوص صوبہ سندھ کا ایک بڑا حصہ اور بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقے بھی حالیہ سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین کروڑ سے زیادہ آبادی سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں خوراک کی شدید کمی کا اندیشہ ہے جبکہ وبائی امراض کے پھوٹنے کا خطرہ بھی ہر وقت موجود ہے۔ ذرائع آمدورفت بری طرح متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک بھی کراچی اور اندرونِ سندھ کا ملک کے دوسرے حصوں سے ریل کا رابطہ منقطع ہے جبکہ سڑکوں کا نظام بھی بری طرح متاثر ہے۔ بہت سے پل ٹوٹ گئے ہیں اور زراعت کے نظام کو بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ لوگوں کی زندگی مشکلات سے بھری ہوئی ہے کیونکہ زندگی کا تقریباً ہر شعبہ اس سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نقصان کا اندازہ تقریباً 11ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں جبکہ بہت سی رفاعی تنظیمیں اور ادارے بھی اپنا کام بھرپور طریقے سے کر رہے ہیں۔ ذرائع کم ہونے کی وجہ سے بحالی کا کام اس طرح نہیں ہو رہا جیسے ہونا چاہیے۔ وزیراعظم شہبازشریف بھی ہر متاثرہ علاقے میں پہنچنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں تاکہ بحالی کے کاموں کی خود نگرانی کر سکیں۔ بہت سے دوست ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی امدادی سامان بھیج رہی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر بھی امداد کی بھرپور اپیل کی جا چکی ہے۔ 
پاکستان میں حالیہ سیلاب کی بڑی وجہ موسمی تبدیلی ہے جس کا اس وقت دنیا کو سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے گذشتہ دنوں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا اور خود متاثرہ علاقوں میں جا کر صورتحال کا جائزہ بھی لیا۔ ان کا کہنا بالکل درست ہے کہ موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بدقسمتی سے یہ اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ گیسوں کے اخراج کو کم کریں اور ان ممالک کی بھرپور مدد کریں جو نا کردہ گناہوں کی پاداش میں اس تباہی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ دنیا پاکستان پر رحم نہ کرے بلکہ انصاف کرے بالخصوص دنیا کے امیر ممالک جو اس موسمیاتی تبدیلی کے بڑے موجب بھی ہیں۔ اظہار یکجہتی کا مطلب ہے کہ ان ممالک بالخصوص پاکستان کو ذرائع مہیا کیے جائیں کہ وہ ان اثرات کا مقابلہ کر سکے۔ دنیا نے اگر ان ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا تو پھر تباہی سب کا مقدر بن سکتی ہے۔ آ ج اگر پاکستان اس کا شکار ہوا ہے تو کل یہی حال کسی اور ملک کا بھی ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے فوری طور پر 160 ملین ڈالر امداد کی اپیل بھی کی ہے تاکہ پاکستان کی فوری مدد کی جا سکے۔
موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ گرین ہائوس گیسوں کا اخراج ہے جو دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میں موجود انڈسٹریز، گیس پلانٹس، نیوکلائی پلانٹس اور بڑے بڑے کارخانوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔  بارشوں بالخصوص Cloud Brust جیسی صورتحال کی وجہ سے ان علاقوں میں بارشیں زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہیں جہاں ویسے اوسطاً کم بارشیں ہوتی ہیں جیسے بلوچستان اور صوبہ سندھ کے اندرونی علاقے۔ یہ ساری صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ زندگی کے حقائق تلخ ہیں اور ہر وقت رونے دھونے اور شکایات کرنے کی بجائے دیکھنا چاہیے کہ ہم نے ان آفات اورمشکلات کو کم کرنے کیلئے خود کیا کیا ہے۔ 
ہمیں اپنے لوگوں کے طرزِ زندگی میں بہتری لانے کی اشد ضروت ہے جس سے ایک تو ان میں شعور بہتر ہوگا اور پھر وہ اس طرح کی مشکلات کا بہتر طریقے سے سامنا کر سکیں گے۔ معاشی طور پر بہتر اور باشعور لوگ ان اثرات کا بہت بہتر طور پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک مستقل خطرہ ہے جس کے لئے نہ صرف ہمیں اب ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے بلکہ مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے جو کثیرالمدتی ہو۔ اب کوئی علاقہ ایسا نہیں قرار دیا جا سکتا جہاں روایتی طور پر وہی موسم ہوگا جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ جن علاقوں میں بارشیں بہت کم ہوتی تھیں وہاں اب زیادہ ہو سکتی ہیں جیسا کہ اس دفعہ ہوا ہے اور اسی طرح جہاں زیادہ بارشیں ہوتی تھیں وہاں اب کم ہو سکتی ہیں ۔ اسی طرح درجہ حرارت بھی کم اور زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ان اثرات سے موثر طور پر نمٹنے کیلئے حکومتوں کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ ہر دفعہ دنیا ہماری مدد کو نہیں آئے گی اور نہ ہی ہر دفعہ رونے دھونے سے کام بنے گا۔ اپنی مدد ہم نے خود ہی کرنی ہے اور یہی دستور زمانہ بھی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن