یو این سیکرٹری جنرل کا دورہ اورسیلاب متاثرین بحالی پروگرام 

یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلابی صورتحال کی سنجیدگی کااحساس ہے، صورتحال دیکھ کر افسوس اور دکھ ہواہے کہ پاکستان میں سیلاب متاثرین نے جانی ،مالی اور ہر قسم کی قربانیاں دیں، سیلاب سے بڑے پیمانے پر نقصانات کے ازالے کے لیے پاکستان کو بڑی رقم کی ضرورت ہے، امید ہے عالمی ممالک ان حالات میں پاکستان کا ساتھ نبھائیں گے، کوئی شک نہیں موسمیاتی تبدیلی بڑا چیلنج ہے، جس سے پاکستان نمٹ رہاہے، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے تو شاید آئندہ کا نقصان اس سے بڑاہو۔پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے المناک صورتحال پیدا کردی ہے۔حکومت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں 150ارب روپے کی کمی کرنے اورسیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وسائل کو بحالی اور تعمیر کی جانب موڑنے کے لیے تیار ہے۔ایسے وقت میں جب موجودہ حکومت نے تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ بحال کیا ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی جانب رخ کرنے کے لیے مالی جگہ تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ابتدائی تخمینوں کہ مطابق پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں 10-12بلین ڈالرز تک کے معاشی نقصان کا سامنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچے غیرمتناسب طور پر متاثر ہوئے اورملک کے صحت کی دیکھ بھال کے 10%اداروں کو نقصان پہنچا ہے، خدشہ ہے ملک میں انسانی صحت عامہ کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ تقریباً 6لاکھ34 ہزار بے گھرافراد کیمپوں میں رہ رہے ہیں لیکن یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کچھ علاقوں تک رسائی بہت مشکل ہے،حالیہ مہینوں میں ریکارڈ گرمی کی لہروں سے لے کر تباہ کن سیلابوں تک پاکستان کو موسمیاتی بحران کا سامنا ہے۔پاکستانی سیلاب کے بعد اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں، امدادی کوششوں کی سست رفتاری پر پورے پاکستان میں غصہ بڑھ رہا ہے،کیمپوں کے حالات خاص طور پر بچوں کے لیے خطرناک ہیں،ان کیمپوں کے زیادہ تربچے غذائی قلت کا شکار ہیں،یہ بحران مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔حکومت کو لوگوں کو سرد موسم سے بچانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا، فصلوں اورکھیتی باڑی کو پہنچنے والے نقصان سے لاکھوں افرادمزید غربت میں جانے کا خطرہ ہے۔فصلوں کے نقصان سے کسانوں اور زمینداروں کی زندگیوں پر یقینا منفی معاشی اثر پڑے گا، کسانوں کو اپنے زرعی فارموں کو بحال کرنے میں تین سے چار سال لگ سکتے ہیں۔ملک بھرلاکھوں گھر زیر آب ہیں، پلوں،سڑکوں،مویشیوں،تعلیمی اداروں اورلوگوں کو سیلاب نے بہا دیا۔پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، ساڑھے تین کروڑ افراد براہ راست متاثر ہیں،سیکڑوں جاں بحق ہو چکے ہیں، غریب لوگوں کے لیے کوئی انخلاء کی سہولیات یا امداد نہ ہے۔ریکارڈ توڑ بارشوں سے 4500 سال پرانے آثار قدیمہ کو بھی خطرہ ہے کیونکہ جھیل بہہ جانے سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی جگہ موہنجو داڑو کو نقصان پہنچا ہے،ان آثار قدیمہ کو جنوبی ایشیا کی بہترین محفوظ بستیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان نے سیلاب یا دیگر موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی سبق نہیں سیکھا، یہ زمین پرگلیشیئرز کے پگھلنے سے ہونے والی طوفانی بارشوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔ قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی جو مارچ 2013ء میں شروع کی گئی تھی، اس کے آغاز کے فوراً بعد ہی روک دی گئی۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرے والے دس ممالک میں شامل ہے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کرنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا میں تباہی مچارہی ہے۔ یورپ 500 سالوں میں اپنی بدترین خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے۔ عالمی سطح پرایک بے مثال گرمی کی لہر کا سامنا ہے جس سے دریا اور جھیلیں سوکھ گئی ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی میں تغیرات، افریقہ سے آنے والی گرم ہواؤں، بحر اوقیانوس کے گرم ہونے کی وجہ سے سمندر کی سطح کے بلند درجہ حرارت اور آرکٹک خطے میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ہوتی ہے۔پانی کے ختم ہونے والے وسائل، جنگل کی آگ اورگرمی کی لہریں براہ راست موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان وسط ایشیائی ممالک میں قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی انحطاط کے منفی اثرات کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 24 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔سیلاب اور زلزلوں سے سالانہ 8لاکھ 43 ہزار آبادی براہ راست متاثر ہوتی ہے، پاکستان کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے صرف 15 فیصد مالی وسائل ہیں ، وفاقی حکومت کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ڈیڑھ سے دو کروڑ ڈالر تک ہنگامی فنڈز ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ سیلاب سے اوسطاً 234افراد اور زلزلوں سے سالانہ اوسطاً863افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں سیلاب سے ایک ارب 50کروڑ ڈالر براہ راست اور بالواسطہ کے ساتھ ایک ارب 60کروڑ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، زلزلوں سے سالانہ براہ راست 61کروڑ 40لاکھ اور بالواسطہ نقصان سمیت 64کروڑ 40لاکھ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کے پاس قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے 85فیصد لوگوں کے باعث نقصان کا ازالہ نہیں ہوتا اور وہ مناسب مالی امداد سے محروم رہتے ہیں ، اگر یہ پیسے واقعی غریبوں پر لگ گئے تو ان کے دکھوں کا مداوا ممکن ہے۔ امداد کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے حکومت فوری طور پر 2022ء کے زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے ویب سائٹ لانچ کرے، جہاں ہر قسم کی انفارمیشن ڈالی جائے تاکہ امداد دینے والے اور لینے والوں کو بھی علم ہو کہ اس کا پیسہ کہاں لگایا جا رہاہے، ایسا کرنے سے حکومت اپنی ساکھ بحال کر سکتی ہے۔درحقیقت اس وقت ہمیں سیاست کو حقیقی معنوں میں عبادت کی طرح کرنی چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن