خوف کی دیوار

کالم:لفظوں کا پیرہن 
تحریر:غلام شبیر عاصم 
دفتر سے نکلا تو پرانی کئی تلخ و شیریں یادوں کے دفتر ک±ھل گئے،میں "گندے نالہ" کی خاموش نالہ سرائی سننے کے لئے رک گیا۔میرا دفتر بابو صابو گندا نالہ کے قریب لبِ سڑک واقع ہے۔بدبودار اور گند بھرے خطرناک دلدل نما اس گندے نالے کی خاموش نالہ سرائی اور آہ و بکا کو صرف میرا تیسرا کان ہی سن سکتا تھا۔فقط ادیب ہی ہے جو تیسری آنکھ اور تیسرا کان رکھتا ہے۔مقتدر لوگوں اور بیورو کریٹس کو شاید اسی لئے مسائل سنائی اور دکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ ادیب نہیں ہوتے،وہ تیسری آنکھ اور تیسرا کان نہیں رکھتے بے شک وہ اپنے ارد گرد کئی"کن ٹ±ٹے" رکھتے ہیں۔میں گندے نالہ میں سیاہ گند پر قدرتی طور پر گویا "پنسل و?رک"سے ہوچکے بلیک اینڈ وائٹ آرٹ کو محسوس کررہا تھا۔لیکن بہت جلد میری تیسری آنکھ اور تیسرا کان کام کرنا چھوڑ گیا،نالہ کی بدبو نے مجھ ادیب کو خیالات کے سمندر سے نکال باہر پھینکا،اور میں باب±و صاب±و سے داتا صاحب تک آنے والے رکشہ پر بیٹھ گیا مجھے کربلا گامے شاہ پہنچنا تھا۔پنجاب سیکرٹیریٹ کے سامنےگورنمنٹ ٹیچرز اپنے حقوق کی خاطر پلے کارڈز لئیے اور فلیکسز آویزاں کئے ہوئے راستہ بند کئے بیٹھے ہوئے تھے۔ر کشہ کچھ دیر کے لئے رک گیا۔پانڈو سٹریٹ کی طرف مڑتی ہوئی سڑک کے کنارےایک ریڑھی پر کھجوروں کا ڈھیر دیکھ کر منہ میں پانی آگیا تھا۔میں نے پچاس روپے کی کھجوریں لے لیں۔اور شاپر بیگ سے ایک ایک کرکے کھجوریں کھا رہا تھا۔دو تین بار میں نے شاپر کو گرہ دی کہ اب نہیں کھاوں گا،باقی ٹھہر کے کھاوں گا،ایک وقت میں اتنی کھجوریں صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہوتیں،لیکن زبان کا چسکا تھا کہ تھم نہیں رہا تھا۔مجھے کربلا گامے شاہ ایک مذہبی کتاب خریدنے کے لئیے سید نقی شاہ صاحب سے ملنا تھا۔خیال تھا کہ کھجوریں انہیں بھی پیش کروں گا۔ان کے ب±ک ڈپو پر پہنچا تو لمحہ بھر میں،م?یں ڈر سا گیا۔اگر کھجوریں کھانے کے بعد خدا نہ کرے،خدا نہ کرے اچانک کسی بھی اور وجہ سے شاہ صاحب کو کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔؟یہاں تو شور مچ جائے گا،لوگ آو دیکھیں گے نہ تاو،مجھے کھینچنا گھسیٹنا شروع کردیں گے۔کسی میڈیکل لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد بے قصور اور بے گناہ ثابت ہونے کے باوجود بھی پولیس والے تو مجھے ہرگز معاف نہیں کریں گے۔بڑا بھی لحاظ رکھیں گے تو بد زبانی کرنے کے ساتھ ساتھ دو تین ہزار روپے خرچہ مرچہ کی ڈیمانڈ ضرور کریں گے۔اتنے روپے تو میری جیب میں بھی نہیں۔الٹا میرے گھر والے بھی پریشان ہوں گے۔اگر میری جیب سے پولیس کو پیش کرنے کے لئیے خرچہ نہ نکل سکا تو کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر مجھے حوالات میں بطور مہمان ضرور رکھیں گے اور تلخ و ترش روئیے سے میری خاطر مدارت کرتے رہیں گے۔یہ ساری باتیں ایک لمحہ بھر میں آسمانی بجلی کی طرح میرے دماغ پر آ گری،اور میں نے بچی ہوئی کھجوریں لپیٹ کر جیکٹ کی جیب میں رکھ لیں۔پتہ نہیں کیوں میرے اس وہم و گمان نے مجھے ڈرا سا دیا اور میں اپنے آپ میں بذدل و وہمی سا انسان بن کے رہ گیا۔اور اندر ہی اندر یہ کہہ بھی رہا تھا کہ میاں تو نے ٹھیک کیا ہے۔مصیبت آنے کا بھلا کوئی پتہ چلتا ہے کب آجائے۔اچھا کیا جو ممکنہ خطرہ سوچ کے تو نے شاہ صاحب کو کھجوریں پیش نہ کیں،وہ انہونی ہو بھی تو سکتی تھی۔سوچتا ہوں مجھ پر اچانک یہ جو کیفیت طاری ہوگئی ہے،اسے بذدلانہ یا مدبرانہ کیفیت کہوں کیا نام دوں؟۔ میں نے اس ساری کیفیت اور ارادے میں اچانک آنے والی تبدیلی سے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سب کچھ ہمارے آس پاس معاشرے میں ہونے والے عجیب و حیران ک±ن اور اوسان اڑا دینے والے واقعات کے زیر اثر ہوا ہے۔نہ جانے کتنے ہی لوگ روزانہ میری طرح وہم و گمان کی اس کیفیت کے زیر اثر آکر عملی طور پر کئی اچھے اور دل جیتنے والے کام سرانجام دینے سے خائف بلکہ تائب ہو جاتے ہوں گے۔اور یوں اخلاقی حوالہ سے ایک بہت بڑی مثبت تبدیلی معاشرے میں رونما ہونے سے رہ جاتی ہوگی۔اگر ہمارے اندر کا یہ وہم وگمان اور خوف ختم ہو جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں شعوری حوالہ سے کئی بہتر تبدیلیاں آسکتی ہیں جو بہت جلد ہمیں مہذب اقوام کی فہرست میں شامل کرسکتی ہیں۔مگر معاشرہ کے اندر ہی سے رونما ہونے والے حیران کن،حوصلہ شکن،ڈرادینے والے واقعات"مثبت تبدیلیوں"کی کان کا منہ بند کئے اور"راہِ راست"کو مسدود کئے ہوئے ہیں۔ایک خوف کی دیوار ہے جو ایک اخلاقی انقلاب کا راستہ روکے ہوئے ہے۔یہ خوف کی دیوار مسمار ہونی چاہئیے۔ہمارے اردگرد پھیلے ہوئی بے حسی اور حیوانیت و درندگی ہمارے دلوں اور ذہنوں میں خوف اور بذدلی کو جنم دے رہی ہے۔کسی بھی طور اس انسانیت دشمن افزائش کو روکنا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔اگر خوف کے اس غیر مرئی دیو کو بھسم نہ کیا گیا تو پھر شاید معاشرہ کبھی بھی امن کا گہوارہ نہیں بن سکے گا۔ہم اشرف المخلوقات کا تاج پہن کر آرام و آسائش کے بہشت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔

ای پیپر دی نیشن