اعظم گِل
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد 16 ستمبر کوریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال ایک سال 6 ماہ 25 دن چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر رہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں عدالت عظمیٰ میں زیر التوائ مقدمات کی تعداد میں مزید 5 ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے 2 فروری 2022 کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف لیا عہدہ سنبھالتے ہی سپریم کورٹ میں زیر التواءمقدمات کی کمی پر فوکس کرنے کا لائحہ بنانے کا کہا مگر زیر التواءمقدمات میں کمی کی بجائے 5 ہزار مقدمات کا مزید اضافہ ہوا۔چیف جسٹس عمر بندیال نے جب عہدہ سنبھالا عدالت عظمیٰ میں51 ہزار 766 مقدمات فیصلے کے منتظر تھے۔ اب سپریم کورٹ میں زیر التواءمقدمات ساڑھے 56 ہزار سے بھی تجاوز کرچکے ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےپی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے 63 اے کے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا تو اس وقت کی اپوزیشن کی جانب شدیدتنقید کا نشانہ بنے ،بطور چیف جسٹس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کیس میں پارلیمنٹ بجال کرتے ہوئے دوبارہ ووٹنگ کا حکم دیا۔ جس کے بعد پنجاب کے سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو بھی کالعدم قرار دے کر پنجاب اسمبلی میں دوبارہ ووٹنگ کا حکم دیا جس کے نتیجے میں پرویز الہٰی پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 کو کالعدم قرار دیا پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے اور اس فیصلے پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل مسترد کرنے کے بھی فیصلے دئیے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ بھی سنایا۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 ،سویلنز کے فوجی عدالتوں میں مقدمات ،آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس سمیت دیگر اہم مقدمات سنے تاہم ان مقدمات کے فیصلے نہ ہوسکے،اسکے علاوہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس بھی انہیں کے دور میں دائر ہوا ،اسکے علاوہ بطور سپریم کورٹ جج آپ نے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس سننے والے بینچ کے سربراہ بھی رہے 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ بھی تحریر کیا تھا ،اسکے علاوہ جسٹس عمر عطا بندیال از خود نوٹس کے طریقہ کار پر فیصلہ دیا ،تاہم جسٹس عمر عطا بندیال اپنے مختلف مقدمات میں فیصلوں، بینچز کی تشکیل ،اور فل کورٹ تشکیل نہ دینے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنے تاہم تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کے بھی خلاف توہین عدالت کے قانون کا استعمال نہیں کیا ان کے دور میں ججز کے اختلافات کی وجہ سے ایک نہیں دو سپریم کورٹ اور ہم خیال ججز کی اصطلاح بھی پہلی دفعہ زبان زد عام رہی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بار ایسوسی ایشن، سیاسی جماعتوں کے ساتھ تو اختلافات رہے ہی مگر بدقسمتی سے انکی اپنے ساتھی ججز کے ساتھ بھی نہیں بن پائی۔پارلیمان نے بھی انکے فیصلوں پر نا صرف سخت تنقید کی بلکہ قراردیں بھی پاس کی انکے دور میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے رہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کو ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کو ساتھ ملاکر سینیئر ججز کو نظر انداز کرنے، مخصوص جماعت یا لیڈر کی طرف جھکاو¿،کچھ سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کا دور سمجھا جاتا رہا۔