کہانی شاید تھوڑی طویل ہو لیکن دلچسپ ہے۔ کسی گاوں میں ایک شخص کے گھر میں چوہے کچھ زیادہ ہوگئے تو وہ شہر سے چوہے پکڑنے کیلئے کڑکی لے آیا اور گھر میں ایک جگہ باقی سامان کے ساتھ رکھ دی کہ رات میں اسے لگائے گا، ایک چوہا خوراک کی تلاش میں ادھر آ نکلا اور کڑکی کو دیکھ لیا فورا سمجھ گیا کہ یہ اسی کیلئے لائی گئی ہے۔ اب تو اس کی شامت آگئی ہے۔ اس گھر میں کبوتر، مرغا اور بکری بھی تھے ،چوہا پریشانی کے عالم میں بھاگتا ہوا کبوتر کے پاس گیا اسے کڑکی کے بارے میں بتایا کبوتر نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے جواب دیا یہ میرا مسئلہ نہیں وہ تو تمہارے لئے لائی گئی ہے بس اب تم اپنی خیر مناو¿۔
چوہا دوسری جانب کھڑے مرغے کے پاس چلا گیا تاکہ اس سے کوئی حل پوچھ سکے مرغے نے بھی کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا اس سے میرا کیا تعلق تم جانو اور کڑکی، چوہا اب گھر کے سب سے بڑے جانور بکری سے مشورہ لینے چلا گیا اس نے بھی چوہے کا ٹھٹھا لیتے ہوئے کہا بھائی تمہاری تو شامت آگئی ہے بھگتو۔ کب تک بچو گے۔ چوہا مایوس ہوکر ایک جانب چلا گیا۔ رات ہوتے ہی دیہاتی کی بیوی نے کمرے کے ایک کونے میں کڑکی لگا دی۔
کچھ دیر بعد کڑکی کے بند ہونے کی آواز آئی وہ سمجھ گئی کہ چوہا پھنس گیا ہے اس نے سوچا اسے نکال کر باہر پھینک دیتی ہوں ،وہ کمرے میں کڑکی کے پاس گئی تو اس میں دراصل ایک سانپ پھنس چکا تھا خاتون کو اندھیرے میں محسوس نہ ہوا وہ قریب گئی تو آخری سانسیں لیتے سانپ نے اسے ڈس لیا۔ دیہاتی فورا اپنی بیوی کو گاوں کے حکیم کے پاس لے گیا تو اس نے کچھ علاج کرنے کے بعد اسے کبوتر کی یخنی پلانے کو کہا۔ وہ شخص گھر آیا آتے ہی کبوتر کو زبح کیا اور اپنی بیوی کو یخنی بنا کر پلادی۔
اگلے روز گھر میں خاتون کی تیمارداری کیلئے اس کے رشتہ دار آگئے دیہاتی کو ان کے کھانے کیلئے مرغا زبح کرنا پڑ گیا۔سانپ کچھ زیادہ زہریلا تھا علاج سے وہ خاتون ٹھیک نہ ہوسکی اور انتقال کر گئی اس کے لئے گھر میں دعا کروائی گئی تو دیہاتی نے مہمانوں کو کھلانے کیلئے اپنا بکرا ذبح کر ڈالا اور وہ چوہا گھر میں ہی دندناتا پھر رہا تھا، اگر آپ کو یہ کہانی کچھ بے معنی سی لگ رہی ہے تو آپ بھی ویسی ہی غلطی کررہے ہیں جس کی یہاں نشاندہی کی گئی ہے اور اگر کہانی جانوروں کی وجہ سے غیر متعلقہ لگ رہی ہے تو کچھ اپنے ملکی واقعات جان لیں۔
2010 میں اس وقت کی حکومت نے تمام جماعتوں کے ساتھ ملکر آئین کا حلیہ درست کرنے اور اس میں فوجی آمروں اور مارشل لاءادوار کی شامل کردہ شقیں نکالنے کا فیصلہ کیا،شق وار جائزہ کے دوران بات سامنے آئی کہ ضیا الحق کے اپنے سیاسی مخالفین کو باہر کرنے کیلئے متعارف کرائے گئے آرٹیکلز باسٹھ اور تریسٹھ کو مسلم لیگ ن نے ختم کرنے کی مخالفت کی۔ شاید ان کی قیادت کے زہنوں میں یہی ہوگا کہ ہمیں اس سے کیا مسئلہ ہے ہم تو ہیں ہی صادق اور امین اور پھر کیا ہوا۔ اسی جماعت کے سربراہ اس شق کے آئین میں شامل ہونے کے لگ بھگ تین دہائیوں بعد اس کی زد میں آنے والے پہلے سیاسی لیڈر بنے اور تاحیات سیاست سے باہر کردئیے گئے۔عمران دور میں ایک وزیر صاحب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کیسز سے وہ پریشان ہوں جن کے خلاف یہ ہیں۔ ہمارے خلاف تو کوئی کیس ہی نہیں۔
پھر ایک تجربہ کار اپوزیشن سیاستدان کھڑے ہوئے اور بولے ہم بھی یہی سمجھتے تھے لیکن جب کیسز بنتے ہیں تو سمجھ آجاتی ہے۔ آج ان وزیر صاحب کو ایسی سمجھ آئی کہ وہ سیاست ہی چھوڑ گئے ،پھر ایک اور فوجی آمر پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کے لیئےاور بلیک میلنگ ٹول کے طور پر نیب کا قانون بنایا۔ جن کے خلاف بنایا گیا وہ جماعتیں اقتدار میں بھی رہیں لیکن اسے تبدیل یا ختم نہ کر سکیں یا بوجوہ نہ کیا گیا۔ اور پھر سبھی ایک ایک کرکے اس کی زد میں آئے اور جب نیب کو اچھا خاصا بھگتنے کے بعد ان جماعتوں نے ملکر اس قانون کو تبدیل کیا تو ایک اور سیاسی لیڈر عمران خان نے سپریم کوٹ سے پرانا قانون بحال کروادیا۔ شاید وہ بھی یہی سمجھتے رہے ہیں کہ یہ تو ان کیخلاف ہے ہی نہیں۔ تو بھائی دراصل مسئلہ سیدھا سا ہے۔ ضروری نہیں کو جو جال جس کیلئے بچھایا جائے وہی اس میں پھنسے یا جو گڑھا جس کیلئے کھودا جائے وہی اس میں گرے۔ کبھی کبھی کبوتر ،مرغے اور بکری جیسے جانور بھی اس چھوٹی سی کڑکی کی زد میں آجاتے ہیں جو ان کیلئے لگائی ہی نہ گئی ہو۔ اور یہ ہوتی ہے وقت کی کڑکی۔جو کسی کا بھی برا وقت ساتھ لا سکتی ہے۔
٭....٭....٭