29 ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حلف برداری قابل تقلید مثال

اعظم گِل
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 17ستمبر کوپاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا ہے۔ انکے خلاف صدارتی ریفرنس بجھوانے والے صدر مملکت عارف علوی نے ان سے حلف لیاوزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے بھی تقریب میں شرکت کی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی تقریب حلف برداری ایوان صدر میں منعقد ہوئی، تقریب حلف برداری میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر،سابق چیف جسٹس صاحبان، ججز اور وکلا اور صحافیوں نے شرکت کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حلف کے دوران ان کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ بھی خلاف معمول شوہر کے ہمراہ سٹیج پر کھڑی رہیں وہ شوہر کے بائیں جانب موجود رہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ سرینہ عیسیٰ کو برابر میں کھڑا کر کے حلف اٹھایا۔حلف برداری کے آغاز سے پہلے جسٹس قاضیٰ فائز نے اہلیہ سرینہ عیسیٰ کو بلایا اور اپنے ساتھ کھڑا کیا۔ سرینہ عیسیٰ حلف برداری مکمل ہونے تک ان کے ساتھ موجود رہیں۔حلف لینے والے صدر عارف علوی نے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس بھیجا تھا۔ چار سال قبل پی ٹی آئی کے دور حکومت میںصدر نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت جو ریفرنس بھیجا تھا اس میں سرینہ عیسیٰ کو بھی انکوائریز میں پیش ہونا پڑا تھا۔جب حلف مکمل ہوا تو وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی اپنی نشست پر واپس لوٹ گئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے تھے، 2019 میں صدارتی ریفرنس کے بعد سینئر ترین جج ہونے کے باوجود انہیں تین سال سے کسی آئینی مقدمے کے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع کے بعد اپریل سے معمول کے بینچز میں بیٹھنے سے معذرت بھی کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان بننے کے ساتھ ہی جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ بھی بن گئے ہیں جوڈیشل کمیشن کے ذریعے اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتیاں ہوتی ہیں اور سپریم کورٹ میں اس وقت دو جج صاحبان کی آسامیاں خالی ہیں۔جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل اعلی عدلیہ کے ججز کیخلاف شکایات سننے کا فورم ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما قاضی محمد عیسیٰ کے بیٹے اور پاکستان بننے سے پہلے قلات کے وزیراعظم قاضی جلال الدین کے پوتے ہیں۔
 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آباءو اجداد کا تعلق افغانستان کے علاقے قندھار سے تھا، بعد میں وہ بلوچستان کے علاقے پشین میں آکر آباد ہوئے، ان کے دادا قاضی جلال الدین قلات ریاست کے وزیراعظم رہے۔ جبکہ والد قاضی محمد عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا، قاضی محمد عیسیٰ صوبہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ بعد میں جب پاکستان کے قیام کیلئے ریفرنڈم ہوا تو انہوں نے اس میں بھرپور تحریک چلائی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی گرامر اسکول سے او اور اے لیول مکمل کیا۔ جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول لا ءسے بار پروفیشنل ایگزامینیشن مکمل کیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ اور مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔ ان کی پہلی تعیناتی ہی بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ہوئی۔ جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے۔تین نومبر2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔بعد میں سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیے جانے پر اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججزنے استعفیٰ دے دیا۔پی سی او کیس فیصلے کے نتیجے میں بلوچستان ہائیکورٹ کے تمام جج فارغ ہوگئے تو جسٹس فائز عیسیٰ 5 اگست 2009 کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔ وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے پہلے جج ہیں جن کی پہلی تعیناتی ہی کسی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ہوئی تھی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی جسے منظور کر لیا گیا۔سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کو لگائی گئی ایمرجنسی کے بعد سے وہ عبوری آئینی حکم کے تحت ججز کے حلف لینے کے بھی شدید مخالف رہے اور ان ججز کے سامنے پیش ہونے کا سلسلہ بطور احتجاج ترک کر دیا۔
بطور وکیل وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور شریعت کورٹ میں پیش ہوتے رہے جبکہ متعدد بار عدالت میں بطور معاون و مددگار بھی طلب کئے گئے۔ وہ بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ بار کے رکن تو رہے لیکن بار کی سرگرم سیاست نہیں کی۔بلوچستان ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی سے قبل وہ انگریزی اخبارات میں آئین و قانون، تاریخ اور ماحولیات پر تجزیاتی آرٹیکلز بھی لکھتے تھے، اس کے علاوہ ماس میڈیا لاز اینڈ ریگولیشن کے مشترکہ مصنف، بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ کے بھی مصنف ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔پاکستان کی عدلیہ کا حصہ بننے کے 14 سال بعد وہ سپریم کورٹ کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچے ہیںجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہی بہت سے چینلجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔سپریم کورٹ میں اسوقت زیر التوامقدمات مقدمات کی تعداد ساڑھے 56 ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔نئے چیف جسٹس کے لیے عدالت عظمی میں زیر التوامقدمات میں کمی ایک بڑاچیلنج ہوگا۔اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار,بنچز کی تشکیل,184/3 کے مقدمات کے پیرامیٹرز, فل کورٹ میٹنگ, پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو¿کے تاثر کوکم کرنا,عوام میںعدلیہ پر اعتماد بحال کرنا جیسے چیلنجز کا چیف جسٹس کو سامنا کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کیساتھی ججز کے اختلاف اور تحفظات کو دور کرکے ایک نہیں دو سپریم کورٹ کے بڑھتے ہوئے تاثر کو زائل کرنا سمیت آڈیو لیک کمیشن کیس, فوجی عدالتوں کا مقدمہ اور ملک بھر میں انتخابات کیس جیسے مقدمات جسٹس قاضی فائز عیسی کو بطور چیف جسٹس چیلنجز درپیش ہونگے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس پاکستان دور اگرچہ مختصر ہوگا مگر وہ 25 اکتوبر 2024 کو عہدے سے ریٹائر ہو نے سے قبل بلاشبہ قابل تقلید مثال بن کر فیصلوں پر مبنی نظیر چھوڑ جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن