پاکستان کے مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں عام آدمی کی زندگی کسی عذاب سے کم تر نہیں حالت یہ ہوگئی ہے کہ لوئر مڈل کلاس کے ہر گھر کے اخراجات سے زیادہ یوٹیلیٹی بل ہیں لوگ اپنے بچوں کے کھانے پینے ان کی پرورش پر کم پیسے خرچ کر رہے ہیں جبکہ یوٹیلیٹی بلز کی مد میں زیادہ اخراجات کرکے ریاست کے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ریاست ہے کہ چلنے کا نام نہیں لے رہی نت نئے امتحان نت نئے سیاپے نت نئی سازشیں نت نئی کارروائیاں نت نئے ایجنڈے نت نئے دباو اور خون نچوڑنے کے نت نئے طریقے بااختیار لوگوں کے نت نئے چونچلے ہر روز میڈیا پر نت نئی کہانیاں تاہم ایک سوال جو بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ آخر کار پاکستان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔
ایک طرف سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ عروج پر ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کا طوفان ہر چیز کو اڑا لے جا رہا ہے بجلی کا بل ہی مان نہیں تھا اوپر سے گیس کے بل دوگنا بڑھا دیے گئے اور رہی سہی کسر پٹرول بم نے نکال دی ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے ہر چیز مہنگی کر دی ہے۔ ایسے لگتا ہے عوام کو سول وار کی طرف گھسیٹا جا رہا ہے لیکن کمال کاصبر پایا ہے اس قوم نے سب کچھ برداشت کیے جا رہی ہے پاکستان تمام تر مسائل کے ساتھ ایک نئے فیز میں داخل ہو رہا ہے یہ نیا فیز بظاہر نگرانوں کا ہے لیکن یہ دور منتخب حکومتوں سے زیادہ بااختیار لوگوں کا ہے ۔
چھٹی حس کہہ رہی ہے عوام کو قبروں تک پہنچا کر ریلیف دینے کا بندوبست کیا جائے گا تاکہ عوام کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ انھیں موت کے منہ سے بچایا گیا ہے ۔میجر آپریشن شروع ہو چکا ہے چند دنوں میں بہت کچھ ہوتا ہوا نظر آئے گا پاکستان کے نئے قاضی القضا کے آنے سے عدالتوں کا نیا چہرہ سامنے آئے گا نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بہت نازک دور کے چیف جسٹس ہیں جہاں منصفی کرنا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے غیر معمولی حالات ہیں جبکہ عدلیہ بہت زیادہ ڈمیج ہو چکی ہے اس کے وقار کی بحالی بہت بڑا چیلنج ہے۔
پچھلے دور میں عدلیہ کی رٹ بہت زیادہ مجروح ہو چکی ہے لیکن نئے دور کے اپنے تقاضے ہیں بااختیار حلقے ان سے آوٹ آف دی وے سپورٹ کی خواہش رکھتے ہیں سیاسی جماعتیں ان سے لیول پلینگ فیلڈ کی آس لگائے بیٹھی ہیں کہ عدلیہ ان کو سیاسی انتقام سے بچانے کیلئے کردار ادا کرے گی بنیادی انسانی حقوق پر پہرہ دے گی خود چیف جسٹس صاحب کا بھی کڑا امتحان ہے کہ ماضی میں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے کیا وہ سارا کچھ بھول کر نئے راستے کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر وہ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے معاملات کے مداوا میں پڑ جاتے ہیں عوام کی بھی ان سے بڑی توقعات ہیں کہ انھیں فوری انصاف کے حصول میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے یا اعلی عدالتیں ریاستی معاملات میں الجھ کر رہ جاتی ہیں دوسری جانب تازہ ترین سیاسی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان پر ایک بین الاقوامی طاقت پورے زور کے ساتھ دباو ڈال رہی ہے کہ فوری الیکشن کروانے جائیں جبکہ زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ ایجنڈا کی تکمیل تک الیکشن نشتہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر میاں نواز شریف اگلے ماہ اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق وطن واپس آجاتے ہیں تو سمجھیں کہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں اگر وہ نہیں آتے تو اس کا۔مطلب یہ ہے کہ الیکشن میں غیر معمولی تاخیر ہے یہ بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن آج کل اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں ہے ان کے قریبی لوگوں کو نگران حکومت میں ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے ۔انکے پروردہ بیوروکریٹس کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے انھیں ریلیف دینے کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے دوسری جانب ان کی حلیف جماعت پیپلز پارٹی کی آہ وبکا بتا رہی ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں کوئی جگہ نہیں مل رہی سب سے متاثرہ جماعت پی ٹی آئی بھی گڈ بک کے کسی صفحے تک رسائی کی تگ ودو میں ہے سابق چیف جسٹس بندیال صاحب جاتے جاتے نیب کا جن آذاد کر گئے ہیں جس سے سانپ سیڑھی کا نیا کھیل شروع ہو گیاہے ۔
اسٹیبلشمنٹ کے پاس سیاستدانوں کو اوقات میں رکھنے کا بہت بڑا ہتھیار آ گیا ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ محفوظ ہو چکے ہیں وہ اب سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں تمام سیاسی جماعتوں کے پاس اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں جگہ پانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے آپریشن کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں اسٹیبلشمنٹ کو ایک طرف کارروائی سے عوامی پذیرائی مل رہی ہے تو دوسری جانب فوری الیکشن کروانے کے لیے بین الاقوامی دباو کا سامنا ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اگر عوام کو فوری ریلیف نہ ملا تو گیم کسی کے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔
٭....٭....٭
اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک
Sep 19, 2023