اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی عدالت نے فون بگنگ اور آڈیو لیکس سے متعلق درخواستوں میں وزارت داخلہ اور پی ٹی اے کے جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی قائمہ کمیٹی طلبی سمن معطلی کے حکم میں ایک ماہ کی توسیع کردی۔ گذشتہ روز بشری بی بی اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔ جسٹس بابر ستارنے کہاکہ کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ ملک کی کون سی ایجنسی کالز ریکارڈ کرتے ہیں؟۔ ایف آئی اے، ایم آئی، آئی بی جو بھی ہو مجھے اس پر جواب چاہیے، فریقین اس پر جامع اور قانونی رپورٹ جمع کریں یا وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا جائے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل کی سپریم کورٹ میں مصروفیت پر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔ عدالت نے فریقین کو جامع اور قانون کے مطابق رپورٹس جمع کرنے کی ہدایت کی۔ دوران سماعت توشہ خانہ کیس سننے والے جج ہمایوں دلاور کی فیس بک پوسٹس کا بھی ذکر کیا گیا۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ جج فیس بک پوسٹس سے متعلق ایف آئی اے نے وکیلوں کو بلانا شروع کردیا۔ جسٹس بابر ستار نے کہاکہ میں ایف آئی اے یا کسی ادارے کو کارروائی کے لیے ابھی ڈائریکشن نہیں دے سکتا، ان کو رپورٹ جمع کرانے دیں پھر آپ کا اگر اعتراض ہوا تو چیلنج کریں۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ بشری بی بی کو بلا کے کہتے ہیں وائس ریکارڈ کروائیں۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آج آپ کچھ نہ بولیں، اٹارنی جنرل کی موجودگی میں آپ دلائل دیجیے گا۔ عدالت نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی قائمہ کمیٹی طلبی کے سمن معطل کرنے کے حکم میں ایک ماہ کی توسیع کردی اور کہاکہ مجھے آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، ایف آئی اے سے کوئی مسئلہ نہیں، قانون کے مطابق وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے، جو سوال وفاقی حکومت سے پوچھے گئے ہیں وہ ان کے جواب دے، وزارتوں کے جواب سے لگ رہا کوئی بھی کالز ریکارڈ کررہا ہے، کالز ریکارڈ کرنے کی سہولت ہی نہیں ہے۔ جسٹس بابر ستار نے وکلا سے کہا کہ آپ یہ آرڈر چاہ رہے ہیں کہ ایف آئی اے قانون کے مطابق کام کرے، یہ تو بے معنی آرڈر ہو گا کیونکہ ایف آئی اے نے قانون کے مطابق ہی کام کرنا ہے، آپ کہتے ہیں تو میں آرڈر لکھوا دیتا ہوں۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہماری استدعا ہے کہ ایف آئی اے کو بشری بی بی کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔ جسٹس بابر ستار نے کہاکہ میں ایک انویسٹی گیشن ایجنسی کو انویسٹی گیشن سے نہیں روک سکتا۔ جب قانون کی کوئی خلاف ورزی ہو تو آپ اسے چیلنج کر سکتے ہیں۔ دوران سماعت وزارت داخلہ اور پی ٹی اے نے اپنے تحریری جواب جمع کروا دیے۔ عدالت نے وزارت داخلہ اور پی ٹی اے کے تحریری جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے دوبارہ جواب طلب کرلیا اور ہدایت کی کہ تسلی بخش جواب نہ دیا تو احساس اداروں کو نوٹس کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جسٹس بابر ستار نے کہاکہ تحریری جوابات میں عدالتی سوالات کا جواب نہیں دیا گیا، یہ عدالت تحمل کا مظاہر کرتے ہوئے ایک آخری موقع دے رہی ہے، حکومت جواب دے ورنہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو براہ راست فریق بنائیں گے۔ عدالت کو آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی یا ایف آئی اے سے کوئی مسئلہ نہیں، دو ہی صورتیں ہیں کہ حکومت جواب دے یا ایجنسیز کو فریق بنائیں، وفاقی حکومت جواب دے ورنہ حساس اداروں کو ڈائریکٹ پارٹی بنا کر جواب طلب کریں گے۔ نمائندہ وزارت دفاع نے کہاکہ آڈیو ریکارڈنگ میں ہمارا کوئی کردار ہے نہ موجودہ کیس میں ہم نے ریکارڈنگ کی ہے۔ عدالت نے کہاکہ اٹارنی جنرل کی عدم پیشی کے باعث سماعت ملتوی کر رہے ہیں۔ عدالت نے سماعت ملتوی کردی۔