پاکستان سیاست بچوں کا وہ جھولا ہے جس میں ایک بار جو سوار ہوتا ہے وہ اس میں جھوم جھوم کر اس کے مزے لیتا ہے ،جو لوگ بھی سیاست میں حادثاتی طور پر آتے ہیں ،عام لوگ ان سے بہتری کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔چونکہ ایسے لوگ روایتی سیاست سے نظام کا حصہ نہیں بنے ہوتے اس لئے ان کے منشور میں تبدیلی کے پر کشش نعرے زیادہ ہی ہوتے ہیں ۔چیئرمین پاکستان کرکرٹ بورڈ سید محسن نقوی کو سیاست وراثت میں نہیں ملی ،وہ ملکی سیاست میں آئے اور لوگوں کی توقعات ان سے بہت بڑھ گئیں جس پر وہ کتنا پورے اترے اس کا جائزہ ضرور لیا جاسکتا ہے۔چئیرمین پی سی بی کی کارکردگی پر بات کی جائے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی عالمی مقابلوںکی کارکردگی تو سب کے سامنے ہی ہے اس پر پردہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔کرکٹ میں ہم عالمی سطح پر جب اپنے آپ کو منوانے کی بات کرتے ہیں تو کھلاڑیوں کے ساتھ ایمپائرنگ کو کرکٹ کا اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے۔اس سے نہ صرف کھیل میں توازن اور فیئر پلے ممکن ہوتا ہے بلکہ کھلاڑیوں کا کیرئیر بھی انحصار کر رہا ہوتا ہے۔ایک اچھا فیصلہ جہاں کھلاڑی کی زندگی بدل کر اسے نیشنل ٹیم میں جگہ بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے تو دوسری جانب ایک غلط فیصلہ اسے کیرئیر کے اگلے مواقع ملنے سے محروم کر دیتا ہے۔ نیوٹرل ایمپائرز کے ساتھ کرکٹ میں ریویو سسٹم جب سے آیا ہے اس سے کھلاڑیوں کے خدشات تو کافی حد تک دور ہو گئے ہیں مگر نیشنل لیول پر چونکہ ریویو سسٹم نہیں ہوتا اس لئے ایمپائرنگ کا معیار بہت اہمیت رکھتا ہے۔90ء کی دہائی تک پاکستان ان ممالک میں شامل رہا جن کی ایمپائرنگ کا معیار اور فیصلوں پر ٹیموں کو شدید تحفظات رہے۔مگر 2000 کے اوائل میں اس وقت کے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈلیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیاء نے نوجوان اور پڑھے لکھے ایمپائرز کو پروموٹ کیا اور ان سے قائداعظم ٹرافی اور نیشنل لیول کے ٹورنامنٹس میں ایمپائرنگ کرائی۔ ان فیصلوں سے علیم ڈار اور اسد رؤف جیسے ایمپائرز سامنے آئے۔علیم ڈار نے 2000 میں پہلا انٹرنیشنل کرکٹ میچ سپروائز کیا۔ پھر تین مرتبہ آئی سی سی ایمپائر آف دی ایئر قرار پائے۔ اسد رؤف بھی دنیا کے بہترین ایمپائر ثابت ہوئے اور آج تک ان کے درست فیصلوں کا ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسی بڑی ٹیموںکے مطمئن ہونے کا سہرا جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیاء کو جاتا ہے مگر اس کے بعدآنیوالے چیئرمینز نے اس پر توجہ نہ دی اور کھیل کے اس شعبہ کا معیار گرتا چلا گیا۔شعبہ ایمپائرنگ کو پچھلے کئی سالوں سے صرف دو افراد سینئر مینیجر بلال قریشی اور مینیجر عبدالحمید دیکھ رہے ہیں جن پر بہت سارے لوگوں کے تحفظات ہیںبتایا گیا ہے کہ انہیں ایک سابقہ بورڈ عہدیدار کی سفارش پر بھرتی کیا گیا۔ بلال قریشی نے کبھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے اور نہ ان کے پاس فرسٹ کلاس کرکٹ ایمپائرنگ کا تجربہ ہے ۔ایک عام تاثر یہ ہے کہ انہیں ڈائریکٹر ڈومیسٹک خرم نیازی، جنرل مینجر جنید ضیاء اور سی او او سلمان نصیر کی آشیرباد حاصل ہے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایمپائرز سے متعلق کپتانوں اور ریفریز کی رپورٹس کو دیکھتے ہیں اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر تے ہیں۔وہ تمام رپورٹس جن کی بنیاد پر ایمپائرز کی سالانہ پرفارمنس بنائی جاتی ہے وہ بھی خفیہ رکھی جاتی ہیں۔جبکہ آئی سی سی سمیت باقی کرکٹ بورڈز میں یہ رپورٹس ایمپائرز کے ساتھ شئیر کی جاتی ہیں۔
توکیا پروموشن کے معاملے اور سالانہ رپورٹس کی بنیاد پر چئیرمین پی سی بی اور ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ان معاملات سے لاعلم ہیں ؟۔اگر وہ لاعلم ہیں تو اس شعبے کے ساتھ وابستہ افراد کے ساتھ زیادتی ہے ۔2019 میں اس وقت کے چیئرمین احسان مانی کے دور میں ایمپائرز کو میڈیکل کروانے کا کہا گیا اور ایک کمیٹی سے ایمپائرز کے انٹرویوز کیے گئے مگر جب ایمپائرز کے حتمی پینل بنے تو پتہ چلا کہ اپنے پسندیدہ ایمپائرز کو نوازدیا گیا ۔ایک ایمپائر نے جب انکی کرپشن اعلی عہدیدار تک پہنچائی تو اسے ایلیٹ پینل سے ڈویلپمنٹ پینل میں ڈی موٹ کر کے یہ سزا جاری ہے۔احسان مانی اور رمیز راجہ کے دور میں تو کوئی بہتری سامنے نہ آئی مگر جب نجم سیٹھی 2023 میں بورڈ میں دوبارہ آئے تو امید پیدا ہوئی کہ میرٹ پر کام ہو گا اور نوجوان اور پڑھے لکھے ایمپائرز کو پروموشن دی جائے گی مگر ایک مرتبہ پھر وہی چہرے پروموٹ ہو گئے۔اب ایک طرف تو وہ میرٹ سے ہٹ کر نوجوان اور پڑھے لکھے ایمپائرز کا حق مار رہے ہیں بلکہ اپنے پسندیدہ ایمپائرز جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں انہیں سالانہ رپورٹس کی بنیاد پر ترقی دے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے ان کی ریفریشر کورسز کی آڑ میں بورڈ کا پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے ۔
محسن نقوی کے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ بننے کے بعد سے میرٹ اور شفافیت پر بڑے دعوے سامنے آئے ہیں اور اس کے لیے ڈائریکٹر ڈومیسٹک خرم نیازی کو پنجاب حکومت سے ڈیپوٹیشن پر بورڈ میںبہتری کے لیے لایا گیا ہے مگر ایسا انہیں ہوا۔جاری سیزن 2024-25 کے لیے نام نہاد سالانہ رپورٹس کی بنیاد پر ایمپائرز کی پروموشن کی تو پتہ چلا پی سی بی سپلیمنٹری پینل سے ایسے چار ایمپائرز کو ایلیٹ پینل میں پروموٹ کیا گیا جو پچاس سال سے زائد عمر کے ہیں بلکہ تین تو اگلے چند سالوں میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔اب اس کی منظوری براہ راست چئیرمین نقوی سے لی گئی یے یا ڈائریکٹر ڈومیسٹک خرم نیازی کو لاعلم رکھا گیا ہے ؟۔سابق انٹرنیشنل ایمپائر اور عہدے دار خضر حیات نے بتایا کی ضروری ہے کہ نوجوان اور پڑھے لکھے ایمپائرز ایلیٹ پینل میں لائے جائیں ۔اگر نوجوان ایمپائرز اوپر لائے جائیں تو انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستانی ایمپائرز کی نمائندگی بڑھے گی۔اگر ایسا ہوتا ہے تو مزید علیم ڈار اور اسد راوف جیسے ایمپائرپیدا ہوں گے۔زرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ سیزن میں قائد اعظم ٹرافی اور پریذیڈنٹ کپ میں ناقص کارکردگی والے ایمپائرز ایلیٹ پینل میں موجود ہیں۔جس سے کرکٹرز سخت نالاں ہیں اور ان کا کیرئیر داوء پر لگا ہے۔محسن نقوی اور خرم نیازی کو چاہیے ایک غیر جانبدار کمیٹی بنائی جائے اور ایمپائرز کی پروموشن اور ڈی موشن کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور نوجوان، پڑھے لکھے اور فٹ ایمپائرز کو ایلیٹ پینل میں لایا جائے۔کمیٹی کپتانوں اور ریفریز کی رپورٹس کا بھی جائزہ لے۔ پروموٹ ہونے والے ایمپائرز سمیت پچھلے سیزن میں ایلیٹ پینل میں کام کرنے والے ایمپائرز اور نوجوان پڑھے لکھے ایمپائرز سپلیمنٹری پینل میں شامل ہیں۔ان سب کو بلا کر انٹرویوز کیے جائیں۔
چیئرمین کی میرٹ اور شفافیت پالیسی پر سوالیہ نشان
Sep 19, 2024