پاکستانی سیاست کا نیا رخ

تحریک انصاف کے حالیہ جلسہ کے بعد پاکستان کی سیاسی فضا کا رخ جس جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنیوالے دنوں میں ملک کے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار حالات پر کیا منفی اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں۔ عوام کو بے روزگاری‘ مہنگائی‘ جرائم اور دہشت گردی میں روزافزوں بڑھتے اضافے سمیت سیاسی عدم استحکام نے پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا کہ اگلے روز پی ٹی آئی کے این او سی بیسڈ جلسہ میں پی ٹی آئی رہنمائوں کی دھواں دار تقریروں اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خطاب نے حکومتی حلقوں میں ایسی تھرتھرلی مچادی جس کی اتحادی حکومت کو ہرگز توقع نہیں تھی۔ دنیا کے مہذب ممالک میں بھی سیاسی پارٹیوں کے سیاسی جلسوں سے لطف اندوز ہونے والے کارکنوں اور رہنمائوں کا اپنا منفرد سٹائل ہوتا ہے جس میں شعلہ بیانی‘ سیاسی حملے اور اپنے مخالف سیاسی لیڈروں کے ’’لاہ پا‘‘ کے رکھنے کے عمل کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے تاہم یہ الگ بات ہے کہ اس عمل کے دوران 
باہمی عزم و احترام اور مثبت طرز تخاطب کو ہر حال میں اہمیت دی جاتی ہے۔ انہی سطور میں متعدد بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ برطانیہ سے ہم نے جمہوری رول ماڈل حاصل کیا مگر جمہوریت کے حقیقی مفہوم سے ہمارے سیاست دان تاہنوز آگہی حاصل نہیں کر پائے اور یہی وہ بنیادی خامی ہے جو پاکستان کے جمہوری عمل کو مزید پنپنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 
ایک طویل عرصہ بعد تحریک انصاف کو کسی بڑے جلسے کی مشروط اجازت دی گئی۔ این او سی کے تحفظ کے ساتھ جلسہ کیلئے حکومت نے اختتام جلسہ کا وقت بھی مختص کیا تھا۔ جلسہ کے اختتام کیلئے طے شدہ وقت‘ چونکہ پہلی مرتبہ متعارف کیا گیا‘ اس لئے عوام اور بالخصوص پی ٹی آئی کارکنان اور رہنمائوں کو پہلے ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ حکومت کی جانب سے کھڑی کی گئی مبینہ رکاوٹوں اور مرکزی شاہراہوں کی عارضی بندش کی بناء پر لوگ جلسہ گاہ میں آسانی سے نہیں پہنچ پائیں گے جس سے جلسہ شروع ہونے میں تاخیر لازمی ہوگی اور پھر وہی ہوا جلسہ کا آغاز اور اختتام چونکہ تاخیر سے ہوا اس لئے جلسوں کے انعقاد کے سلسلہ میں پاس شدہ قانون فوری طور پر نافذالعمل کیا گیا۔ یاد رہے کہ ہماری جمہوریت میں جہاں دیگر درجنوں خامیاں موجود ہیں‘ وہیں حکومت اور اپوزیشن کے مابین قائم سرد تعلقات عوامی مسائل کے فوری حل پر ہمیشہ اثرانداز رہے ہیں اور یہی ہمارا وہ سب سے بڑا قومی المیہ ہے جس سے ہمارے جمہوری نظام میں آج تک استحکام پیدا نہیں ہو سکا۔ 
جلسہ ہوا‘ عوام اور بالخصوص پی ٹی آئی ورکرزوں کی ریکارڈ توڑ تعداد بھی دیکھی گئی۔ آزادی اظہار کی جھلک بھی نظر آئی‘ اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر 804 اور بانی تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کیلئے کارکنوں کے جذبات اور احساسات بھی دیکھنے کو ملے۔ اس ضمن میں گورے‘ گوریوں کے سوالات کے جواب دینے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا۔ مگر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی تقریر کا آغاز کیا ہوا‘ جلسہ گاہ میں اکٹھی ہونیوالی ’’خلقت‘‘ میں سیاسی بھونچال آگیا۔ 
علی امین گنڈاپور اپنے جوش خطابت میں کیا سے کیا کہہ گئے‘ اپنے لفظوں کے چنائو میں انہیں احتیاط برتنا چاہیے تھی یا نہیں؟ حکومت سے براہ راست مقابلہ کرنے اور اپنے لیڈر عمران خان کی مقررہ مدت میں رہائی کا الٹی میٹم دینا چاہیے تھا یا نہیں؟ ان کا یہ موقف درست تھا یا غلط‘ اس تمام تر بحث میں الجھنے یا اسے دہرانے کا فائدہ اب اس لئے بھی نہیں کہ دنیا کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں پارلیمنٹ کی توہین کو بھی جمہوریت کی توہین ہی تصور کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس! پی ٹی آئی کے این او سی جلسے کے بعد ہماری پارلیمنٹ کے اندر اور باہر معزز اراکین اور ایوان کی جس طرح بے توقیری کی گئی‘ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر جگ ہنسائی سے دوچار ہونا پڑا۔ سپیکر اسمبلی سے پیشگی اجازت کے بغیر معزز اراکین اسمبلی پھر اسمبلی کے اندر پولیس کا مبینہ داخلہ اور بعض گرفتار اراکین پر مبینہ تشدد اس بات کا غماز ہے کہ معزز اراکین اسمبلی کے پارلیمانی حقوق کو دانستہ طور پر پامال کیا گیا۔ یہ فعل بلاشبہ قابل مذمت ہے تاہم سپیکر ایازصادق کے فوری احکامات جس میں آئی جی اسلام آباد سے واقعہ کی مکمل رپورٹ اورat Arms Sergeant  کی فی الفور معطلی انتہائی قابل ستائش اقدام ہے۔ ’’سارجنٹ ایٹ آرمز‘‘ کا بنیادی رول ایوان میں سکیورٹی امور پر عقابی نظر رکھتے ہوئے ہر معزز رکن کی سلامتی کو یقینی بنانا ہوتا ہے‘ سارجنٹ ایٹ آرمز اسمبلی بلڈنگ کے سکیورٹی امور کا انچارج اور سپیکر کو جواب دہ بھی ہوتا ہے۔ مگر حیرت کہ پولیس اور مبینہ نقاب پوش افراد نے سارجنٹ ایٹ آرمز کی موجودگی میں بلاخوف و خطر معزز اراکین کو گرفتار کرلیا جس کی سپیکر کو اطلاع تک نہ دی۔ سوالات اب یہ اٹھ رہے ہیں کہ مذکورہ نقاب پوش بالآخر کون تھے؟ پولیس کو اسمبلی میں داخل ہونے کی اجازت کس نے دی؟ سارجنٹ ایٹ آرمز نے سپیکر کی اجازت کے بغیر کس قانون کے تحت پولیس کو بلڈنگ کے اندر آنے کی اجازت دی؟ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا قیام بھی چونکہ عمل میں آچکا اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق 9 ستمبر 2024ء کے اس افسوسناک واقعہ کی مکمل تحقیق کیلئے 4 رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دے چکے ہیں‘ اس لئے توقع ہے کہ دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا باعث بننے والے اس انتہائی افسوسناک واقعہ کے اصل حقائق جلد قوم کے سامنے پیش کر دیئے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن