قیام پاکستان سے قبل ہی پانی کے تنازعہ کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ پاکستانی نہروں کے ہیڈز بوجوہ بھارت کو دے دیئے گئے۔ تنازعہ کو حل کرنے کیلئے بالآخر ورلڈ بینک نے مداخلت کی اور دونوں ممالک کے درمیان گفت وشنید کا نیا دور شروع ہوا۔ 19ستمبر 1960ء کو دونوں ممالک کے درمیان کراچی میں معاہدہ طے پایا جس کے تحت عالمی بینک سمیت سات ممالک نے منگلا، تربیلا ڈیموں پر 300میگاواٹ کے لئے فنڈز مہیا کئے جبکہ مزید کاموں کیلئے ورلڈ بینک اور امریکہ نے قرضہ بھی مہیا کیا۔ منصوبوں کی تکمیل کیلئے پاکستان نے بھی حصہ ڈالا، بھارت نے رابطہ لنک نہروں اور بیراجوں کی تعمیر کیلئے ایک ارب روپے فراہم کئے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ تقسیم ہند میں پاکستان کو ان اضلاع سے محروم کیوں کیا گیا جہاں راوی بیاس اور ستلج کے ہیڈز تھے اور پھر پاکستان کی نہروں کو پانی کی فراہمی بہم پہنچانے والے ہیڈز بھی بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔
ابھی کل ہی ہم نے عید میلادالنبی بڑے جوش و جذبہ سے منائی۔ ہمیں آپﷺ کے اعمال کی پیروی کرنے کا حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ریاست مدینہ کے قیام کے وقت آقائے دو جہاں نے سب سے پہلے کیا احکامات جاری کئے تھے۔ عرب کی معیشت کا دارومدار تجارت پر تھا۔ مدینہ منورہ کے درمیان باقاعدہ منڈی قائم کی تاکہ شہری اور باہر سے آنے والے براہِ راست اس منڈی تک پہنچ سکیں۔ منڈی میں ناپ تول، حفظان صحت اور دیگر امور کیلئے واضح احکامات دیئے۔ گردونواح اور دور دور سے تاجر اپنا سامان مدینہ لاتے، دام وصول کرتے اور اپنی ضرورت کا سامان بھی حاصل کرتے۔ مدینہ کے تاجر اس فاضل سامان کو دیگر ممالک میں جا کر فروخت کرتے، تجارت بڑھی تو معیشت بھی بہتر ہوتی چلی گئی۔
پاکستان کی زرعی معیشت کا دارومدار پانی پر ہے۔ ہماری انڈسٹری بھی 80% ایگروبیسڈ ہے۔ آبروئے صحافت مجید نظامی مرحوم کے الفاظ میرے ذہن کو کچوکے لگاتے رہتے ہیں کہ"یہودی سو سال پہلے سوچتا ہے، ہندو دس سال پہلے اور سکھ وقت پڑنے پر سوچتا ہے لیکن شاید ہم سِکھ بھی نہیں رہے۔ ہم معیشت کی بربادی کو بھگت رہے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں ہوش نہیں آ رہا"۔ بھیک کے لئے جھولی پھیلانے والوں کو کبھی عزت نہیں ملتی، دھتکارا جاتا ہے۔ آج پاکستان کی تنزلی کی وجہ یہی ہے۔ پاکستان کی قومی معیشت کی بربادی کا کھیل قیام پاکستان سے قبل ہی رچایا گیا تھا جس کیلئے سامراجی طاقتوں نے ہندو کی موافقت میں فیصلے کئے۔ بھارت کے ایجنڈے میں تو تین مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کا پورا پانی تھا۔ مئی 1959ء میں عالمی بینک اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے بنیادی نکات طے پا چکے تھے۔ اس دوران فیصلہ ہوا کہ انڈس واٹر ٹریٹی (جو سندھ طاس معاہدہ کا پارٹ"A" ہے) کے لئے دونوں ممالک منٹس طے کر لیں۔ پاکستان کی طرف سے معروف بیوروکریٹ )آئی سی ایس (جی معین الدین اور
بھارت کی طرف سے این ڈی گلہاٹی نے انڈس واٹر ٹریٹی کے تفصیلی سے نکات پیش کئے۔ گلہاٹی اپنی بیوی کے وفات کے باوجود کام میں لگے رہے اور پاکستانی وفد کی سربراہی کرنے والے جی معین اپنی نئی نویلی دلہن میں کھوئے رہے البتہ جو تفاصیل گلہاٹی نے پیش کیں، کسی تگ ودو کے بغیر قبول کر لی گئیں۔ اور پھر مقبوضہ کشمیر جو ایک متنازعہ علاقہ تھا، وہاں بھارت کو بہتے پانیوں پر پاور پراجیکٹ بنانے کا حق مل گیا۔
بھارت نے یہ حق اندھا دھند استعمال کیا بلکہ اپنے حق سے بارہا تجاوز کیا۔ بگلیہار ڈیم اس کی بدترین مثال ہے۔ ورلڈ بینک کے نیوٹرل ایکسپرٹ نے ٹریٹی کے مندرجات کے خلاف جاتے ہوئے بھارت کے حق میں فیصلہ دیا۔ پاکستان کو اس فیصلہ کے خلاف عالمی عدالت کا رخ کرنا چاہیے تھا لیکن اس وقت کے پاکستانی واٹر کمشنر جماعت علی شاہ فیصلہ نہ کر سکے۔ کشن گنگا کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے، عالمی عدالت برائے انصاف نے
اس بات کا اظہار کیا کہ بگلیہار ڈیم میں نیوٹرل ایکسپرٹ کا فیصلہ غلط ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی کوتاہی اور حقائق سے لاعلمی کی وجہ سے نیلم جہلم پراجیکٹ کو موخر کرتے ہوئے غازی بروتھا پاور پراجیکٹ پر کام شروع کیا گیا حالانکہ 1990ء سے پہلے نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کا ڈیزائن بن چکا تھا۔ اگر غازی بروتھا کے بجائے نیلم جہلم پراجیکٹ کی تکمیل کی جاتی تو عالمی عدالت کشن گنگا کیس کی تعمیر کا بھارتی فیصلہ رد کر دیتی۔ پاکستانی حکمرانوں کی حقائق سے لاعلمی اور کوتاہیاں ہمارے لئے کڑا امتحان ہے، پاکستان میں قدرتی اور آبی وسائل بکھرے پڑے ہیں، انہیں بروئے کار لانے کے بجائے غیرملکی قرضوں میں اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہیگ کی عالمی عدالت میں مقبوضہ کشمیر میں بنائے جانے والے دو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس (کشن گنگا 330میگاواٹ اور رتلے 850میگاواٹ) کے انڈس واٹر ٹریٹی کے اصولوں کا بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈیم سٹرکچر پر کیس سنا جا رہا ہے۔ کوار ، کیرو اور پاکل ڈل منصوبوں پر ڈائیلاگ عالمی بینک کی ثالثی کونسل کے پاس ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر بھارتی غلط کاریاں پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے آبی ماہر ڈاکٹر اقبال علی برملا اظہار کر چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر بنائے جانے والے تمام ڈیموں میں پانی 5ملین ایکڑ فٹ جمع ہونے کی گنجائش ہے، اسے روک کر ضرورت کے دنوں میں پاکستان کو پانی سے محروم اور سیلاب کے دنوں میں شدید سیلاب سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کو توجہ دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی عالمی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ عالمی معاہدوں پر قرارواقعی عمل درآمد کروائیں۔ یار دکھیں!
Justice is only the way for Peace.
سندھ طاس معاہدہ -----کیا کھویا کیا پایا
Sep 19, 2024