جمہوریت اور آمریت

Sep 19, 2024

ڈاکٹر شبیر سرور

15 ستمبر کو بین الاقوامی یومِ جمہوریت ’مصنوعی ذہانت بطور گڈ گورننس‘ کے موضوع پر منایا گیا۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی فروری 2024ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی جمہوریت کی عالمی درجہ بندی 165 ممالک میں 100ویں نمبر سے گر کر 118 پر آ گئی ہے۔ ہمارا اسکور 3.25 تک گر گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ انتخابی عمل میں مداخلت اور حکومتی عدم فعالیت کے ساتھ ساتھ ملک میں عدلیہ کی آزادی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان واحد ایشیائی ملک ہے جسے درجہ بندی میں ’ہائبرڈ حکومت‘ سے ’آمرانہ حکومت‘ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ 2008ء کے بعد سے اس ریٹنگ پر ہمارے ملک کا مجموعی اسکور 4 سے زیادہ رہا، تاہم 2023ء میں پہلی بار یہ سکور 3.25 تک گرا، جو کہ 2006ء(3.92) سے بھی کم ہے جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ملک پر حکومت کر رہے تھے۔ 
 ہمارے ہاں قیام پاکستان سے ہی جمہوریت مسائل کا شکار رہی۔ 77 سال میں سے 32 سال ملک براہ راست فوجی آمروں کے تحت رہا جبکہ صرف21 سال منتخب سویلین حکومتوں کا دور رہا، 13 سال نگران حکومتوں اور بالواسطہ طور پر منتخب اداروں کے مبہم قسم کے خصوصی انتظامات کے تحت رہا۔ ملک میں صرف دو براہ راست جمہوری طور پر منتخب حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ مدت (2013-2008ء اور 2018-2013ء ) مکمل کی، اس دوران بھی فوجی جرنیلوں نے حکومت کی قیادت اور پالیسیوں پر براہ راست اور بالواسطہ اثر ڈالا۔ شدید دباؤ میں صدر آصف علی زرداری نے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کا کنٹرول اداروں کے حوالے کر دیا۔ ایسے مواقع بھی آئے جب یہ تاثر پیدا ہوا کہ پی پی پی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نہ صرف معزول بلکہ پانچ سال کے لیے نا اہل بھی ہوئے۔ مخلوط حکومت نے خوف کے سائے تلے اپنی مدت پوری کی۔
 نواز حکومت (2018-2013ء) کو شدید دباؤ کا سامنا رہا۔ یہاں تک کہ انھیں اقامہ مقدمہ میں بذریعہ سپریم کورٹ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹادیا گیا۔ آج تک ان کا سوال مجھے کیوں نکالا، صحیح جواب کا متلاشی ہے۔ بعد ازاں، عمران خان نے جرنیلی تعاون سے اپنی حکومت بنائی اور دونوں اسٹیک ہولڈرز ’ایک پیج‘ پر رہے لیکن چار سال بعد اسٹیک تبدیل ہو گئے، جنرل باجوہ اور خان دو پیج پر ہوئے تو تحریک عدم اعتماد میں پی ٹی آئی حکومت ایم کیو ایم سمیت کچھ اتحادیوں کی وفاداریاں تبدیل ہونے سے ختم ہو گئی۔ قبل ازیں، جنرل مشرف کی زیرقیادت مسلم لیگ (ق) کی حکومت (2008-2002ء ) نے بھی پانچ سالہ مدت پوری کی لیکن حکومت مکمل طور پر فوجی آمر کے کنٹرول میں تھی۔ قاف لیگ کو ’کنگز پارٹی‘ کہا جاتا تھا، کنگ جنرل مشرف تھے جنھوں نے مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پہلے خود کو ریاست کا چیف ایگزیکٹو قرار دیا پھر صدر رفیق تارڑ کو معزول کیا اور 2002ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے نتیجے میں خود کو پاکستان کا صدر قرار دیا۔ 
کچھ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں نے خود موجودہ اور سابقہ سویلین حکومتوں کے دوران فوجی مداخلت کرانے کی کوشش کی۔ جولائی 2016ء میں مختلف شہروں میں پوسٹرز آویزاں کیے گئے جن میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آگے بڑھیں اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ ’ اب آ بھی جاؤ، جانے کی بات نہ کرو‘۔ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ قریب تھی۔ چند روز بعد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر نے اس سازشی ’موو آن مہم‘ کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ 2014ء میں پی ٹی آئی کے طویل احتجاجی دھرنوں کے دوران بہت چرچا رہا کہ پارٹی کو فوجی جرنیلوں کی بیک ڈور حمایت حاصل ہے۔ یہ خدشہ مزید قوی ہوا جب پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی نے پارٹی چھوڑ دی اور بعد میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور کہا کہ وہ ایسی جماعت کے ساتھ نہیں چل سکتے جو جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی سازش کر رہی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کا ایک اسکرپٹڈ منصوبہ ہے۔ تاہم بات نہ بنی اور پی ٹی آئی نے دسمبر 2014ء میں پشاور اے پی ایس حملہ کے بعد دھرنا ختم کردیا۔ 
فروری 2024ء کے عام انتخابات کو غیر ملکی مبصرین اور میڈیا کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ انتخابات ایسے ماحول میں ہوئے جب پی ٹی آئی کے بہت سے امیدوار پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپتے رہے۔ پارٹی کے سربراہ عمران خان زیر حراست تھے، انتخابی نشان اور پارٹی کا نام تک استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ پارٹی پر مکمل پابندی عائد کرنے کے حوالے سے میڈیا میں کافی باتیں ہوئیں، خاص طور پر 9 مئی کے واقعات کے بعد۔ اقتدار کی اس تمام کشمکش کے دوران عوام ابتر معاشی حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی، پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا شکار ہیں۔ بلوچستان کا سیاسی و انتظامی بحران روز بروز سنگین ہو رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات تاریخ کی بد ترین سطح پر ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کی بیساکھیوں پر ہیں۔ خیبر پختونخوا پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ’سیاسی اسپیس‘ واپس لینے کی تقریروں سے گونج اٹھی ہے۔حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نئی قانون سازی کر رہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ سازگار رہے۔ اقوام متحدہ جمہوریت اور مصنوعی ذہانت کے موضوع پر بات کر رہی ہے مگر ہم بات کر رہے ہیں فائروال کی۔ ایسے حالات میں ہم اس نعرے سے مزید دور ہو رہے ہیں، ’جمہوریت عوامی حکومت، عوام کے لیے اور بذریعہ عوام‘۔ خان جو صرف ’ان‘ سے بات کرنے کا خواہاں تھا اسے بھی سمجھ جانا چاہیے، بہت ہو گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں صرف ایک بات پر متفق ہوں کہ انتخابات حقیقی ہوں گے اور ان میں ملک کے عوام کے حقیقی نمائندوں اور حقیقی قیادت کی جانب سے فیصلہ سازی ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ایک نئے توسیعی میثاقِ جمہوریت پر کام کریں۔

مزیدخبریں