جمعرات،14ربیع الاول 1446ھ19ستمبر 2024

فضل الرحمن کا دولت کد ہ  سیاستدانوں کے دار الشفا میں تبدیل۔ 
چشم فلک  گزشتہ کئی روز سے یہ نظارے بھی دکھا رہی ہے کہ اس کی وضاحت کرنا نوک قلم سے ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ اور سینٹ کے اجلاس سے زیادہ حکومتی اور اپوزیشن اتحاد کو ترامیم کی نہیں مولانا فضل الرحمن کی فکر دامن گیر ہو رہی ہے۔ مسلسل سارا دن ساری رات سیاسی وفود ان کے در دولت کا طواف کرتے ہوئے غالب خستہ حال کی زبان میں
 دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے 
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
 کل تک کے ان کے اتحادی ہوں یا کل تک انہیں برا بھلا کہنے والے سب ان کی نظر التفات کے متمنی نظر آتے تھے۔ شاعر شباب جوش ملیح آبادی کی نظم کا آخری شعر اس صورتحال میں مکمل مولانا کی عکاسی کرتا ہے۔ 
حلقہ باندھے ہوئے مئے خوار ہیں سرگرم طواف 
جوش ہے قبلہ رندان جہاں آج کی رات
 ان کا در دولت اس وقت تک کسی خانقاہ میں عرس کا منظر پیش کرتا رہا ہے۔ درجن بھر جاتے تو ڈیڑھ درجن اور آ جاتے اور ان کے درمیان مولانا حقیقت میں پیر مغاں بنے عرضیاں وصول کرتے دکھا ئی دیتے رہے۔ ان سے ملنے والے ان کی محبت کہہ لیں چاہت پانے کے لیے ان کی محاوراتی نہیں حقیقت میں قدم بوسی کرتے نظر آئے۔ عوام حیران کہ یہ کیاہو رہا بے۔ اس سب کے جواب میں مولانا اپنی مخصوص فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ فخریہ انداز میں یہ کہتے نظر آئے۔ 
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں 
اْدھر جاتا ہے یا دیکھیں اِدھر آتا ہے پروانہ 
اب انہیں کوئی صرف پروانہ کہہ کر ان کی توہین تو کر سکتا نہیں اس وقت تو سنہری پروں والا وہ پروانہ بنے ہوئے ہیں جس پر خود کئی شمعیں قربان ہیں۔ اب جو ان کی خاطر ان کے مفادات کی خاطر قربانی دے گا پروانہ اس شمع پر فدا ہو گا۔ اس ساری پریکٹس سے یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے کہ ہماری سیاست میں نظریات۔ اصول ، سچائی وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ سب اپنے اپنے مفادات کے تابع ہیں۔ باقی سب صرف ڈھکوسلہ ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک ہمارے ہاں
 زمین میرو سلطان سے بیزار ہے 
پرانی سیاست گری خوار ہے
  کا مرحلہ نہیں آیا 
لاہور میں مردہ مرغیاں بیچنے والی خاتون بیٹے سمیت گرفتار، 970 کلو مردہ مرغیاں تلف 
ایسی خبروں کے بعد ہمیں مرد و زن کے درمیان مساوات پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے۔۔ اب تو خیر سے سارے اچھے اور برے کاموں میں دونوں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ ہر وہ کام جو پہلے صرف مردوں سے منسوب تھا اب عورتیں بھی اس میں نام کما رہی ہیں۔ اب یہ نیا کارنامہ ہی دیکھ لیں۔ لاہور جیسے شہر کے وسط میں ٹولنٹن مارکیٹ میں دکان لے کر یہ خاتون کیسے دیدہ دلیری سے مردہ مرغیاں شہر کے ہوٹلوں ریسٹورنٹ اور باربی کیو والوں کو فروخت کرتی تھی۔ 5 یا 10 کلو کی بات ہوتی تو چلیں درگزر کیا جاتا۔ یہ تو 970 کلو مردہ مرغیوں کا معاملہ ہے۔ بات لاکھوں روپے سے آگے جاتی ہے۔ ویسے حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ آخر یہ محکمہ خوراک کی چھاپہ مار ٹیمیں جو آئے روز اِدھر اْدھر پھرتیاں دکھاتی پھرتی ہیں کیا یہ سب صرف فوٹو سیشن ہوتا ہے۔ یہ صرف دکھاوے کی آنیاں جانیاں ہوتی ہیں۔ 
ورنہ صرف ٹولنٹن مارکیٹ کی ایک دکان سے اتنی مردہ مرغیوں کا برآمد ہونا کوئی معمولی بات نہیں وہاں ایسی درجنوں دکانیں ہیں وہاں نجانے کیا کچھ بکتا ہو گا۔ اب جو دکانوں، ہوٹلوں ، باربی کیو مراکز پر ہم برگر اور شوارمے کھاتے ہیں۔ خدا جانے وہ وہ حلال ہوتا ہے یا حرام گوشت کا ہوتا ہے۔ کسی کو کیا معلوم محکمہ فوڈ والے تو ماہانہ بھتہ لے کر سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے کی عادی ہیں۔ انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اس تردد میں پڑیں کہ لوگ کیا کھا رہے ہیں کیا نہیں۔ ویسے بھی الا بلا کھا کر ہمارا نظام ہضم لکڑ ہضم پتھر ہضم ہو چکا ہے۔ اب اس خاتون نے اور اس کے بیٹے نے چھاپہ مار ٹیم کے ساتھ ہاتھا پائی کی اور خوب ہنگامہ کیا۔ یہ ان کے طاقتور یا بااثر ہونے کا ثبوت ہے۔ اب مرد دکاندار حضرات کیا کرتے ہیں اس کا بھی کبھی کوئی کچا چٹھہ سامنے آئے تو بہتر کارکردگی کا اندازہ لگانے میں آسانی رہے گی۔ کیونکہ مردانہ شاپس پر خدا جانے کون کون سے جانور اور پرندے بک رہے ہوتے ہیں۔ 
مالدیپ کا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے انکار 
اقبال نے بہت پہلے کیا خوب کہا تھا جو ہم بھول گئے مگر آفرین ہے مالدیپ والوں پر کہ انہوں نے اسے حزرجاں بنا لیا۔ 
غیرت سے بڑی چیز جہان تگ دو ہیں 
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا
 یہ بات چند جزائر پر مشتمل چند لاکھ کی آبادی والے ملک کے حکمرانوں کی سمجھ میں تو آ گئی مگر پاکستان جیسے چھٹے ایٹمی طاقت کے حکمرانوں کے سمجھ میں نہیں آتی جہاں 24 کروڑ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں سرسبز کھیت ہیں دریا ہیں برف پوش پہاڑ ہیں۔ ساحل سمندر ہے۔ ہر موسم ہیں۔ اگر نہیں ہے تو جذبہ ایمانی کی کمی ہے۔ ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی ایم ایف والے آئے روز نت نئے مطالبات کر کے ہمیں پریشان کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ معاشی بدحالی کا شکار ممالک کے پاس ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ مگر آفرین ہے۔ اس چھوٹے سے ملک پر جو اس وقت معاشی طور پر مسائل کا شکار ہے۔ نہ ان کے پاس رقبہ ہے نہ آبادی۔ اس کے باوجود انہوں نے آئی ایم ایف کے چوپڑی قرضہ والی پر اپنی سوکھی روٹی کو ترجیح دی ہے۔ لگتا ہے انہوں نے غالب کی شاعری پر بھی غور کیا ہے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس لئے انہوں نے قرض لے کر عارضی سکون حاصل کرنے کی بجائے مستقل آرام دہ پرسکون زندگی کی راہ کا انتخاب کیا جو قرض کی ذلت سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ یہ تنگ دستی اور معاشی بدحالی کچھ عرصہ بعد ختم ہو جائے گی مگر بعد میں قرض کی ذلت بھری شرائط والی زندگی مستقل درد سر بنی رہتی ہے جس کا علاج قسطوں کی شکل میں سود ادا کرنے والی گولیوں سے بھی ممکن نہیں رہتا بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ بنا رہتا ہے۔ یہ بات مالدیپ والوں کو تو سمجھ میں آ گئی مگر افسوس پاکستان والوں کو ابھی تک پلے نہیں پڑ رہی۔ جب یہ بات پلے پڑ گئی تو سمجھ سے تمام مسائل بھی حل ہوں گے اور آئی ایم ایف سے بھی جاں چھوٹ جائے گی۔ 
بنوں میں کم نمبر دینے پر مشتعل طلبہ کا بورڈ آفس پر حملہ توڑ پھوڑ 
یہ ہوتی ہے تبدیلی یہ ہوتا ہے انقلاب اور اسی کا نام حقیقی آزادی بھی ہے۔ خیبر پی کے میں وزیر اعلیٰ پہلے ہی عوام کو ھلہ شیری دے چکے ہیں کہ اگر کوئی غلط کرے تو اس کا سر پھاڑ دو میں ذمہ دار ہوں۔ اب طلبہ بھی نمبر کم ملنے پر یہی سمجھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اب وہ زیادہ نمبر دینے کے لیے ایجوکیشن آفس کے باہر مظاہرہ کرنے جا پہنچے۔ ظاہر ہے بورڈ والوں کا جواب جب انکار کی صورت میں ملا تو یہ ہجوم آپے سے باہر ہو گیا اور انہوں نے آفس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بہتر ہوتا یہ جلوس وزیر اعلیٰ سے ملنے جاتا تو اپنی من کی مراد پا لیتا۔ ان کے کہنے پر خیبر پی کے محکمہ تعلیم والے طلبہ کے نمبر میں اضافہ کر دیتے۔ سب جانتے ہیں ان کی مرضی کے بناخیبر پی کے میں مرغی انڈا بھی نہیں دیتی یہ نمبر کیا چیز ہیں۔ اب آزادی کے چاہنے والے اگر اسی طرح اپنی مرضی کے مطابق ہر کام کروانے کے لیے باہر نکلنے لگے تو آزادی گئی بھاڑ میں تبدیلی گئی چولہے میں۔ اس قسم کے حالات سے انارکی پھیلتی ہے۔ صوبے کا سارا کام متاثر ہو گا۔ جذباتی وزیر اعلیٰ آخر کس کس کے دبا? میں آ کر ان کی مرضی کے فیصلے کرنے کی اجازت دیں گے۔ یوں تو صوبے کا نظام ٹھپ ہو جائے گا۔ ہر مسلح گروہ دندناتا پھرے گا ویسے ہی جیسے کچے کے ڈاکو اسلحہ اٹھانے دندناتے پھر رہے ہیں اور دو صوبوں کی پولیس رینجرز کی مدد کے باوجود ان کو نکیل ڈالنے سے قاصر ہے۔ اب دیکھتے ہیں زیادہ نمبر حاصل کرنے کے لئے احتجاج کرنے والے یہ طلبہ اپنے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں یا ناکام۔ غلامی سے آزادی کی راہ دکھانے والے ان آزاد خیال طلبہ کی سنتے ہیں یا نہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن