مجوزہ آئینی ترامیم کا بل مؤخر 

Sep 19, 2024

اداریہ

 مجوزہ آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور نہ ہونے کے باعث حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کا یہ بل پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش نہ کیا جا سکا اور اتفاقِ رائے ہونے تک اسے مؤخر کر دیا گیا۔ اس بنیاد پر سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس بھی ملتوی کر دئیے گئے، اس سلسلہ میں حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم پرمولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ اس معاملہ پر وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے باہمی ملاقات میں اتفاق بھی کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے یہ امر بھی واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ ہی ہوں گے۔ اسی طرح مشیر وزیر اعظم رانا ثناء اللہ کے بقول بھی آئندہ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ ہی ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے نہ ہونا حکومتی مشاورتی ٹیم کی ناکامی ہے۔ 
بدقسمتی سے ہمارا یہ سیاسی کلچر بن چکا ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور محض اپنے سیاسی مفادات کے لئے آئین و قانون کی پاسداری کو فوقیت نہیں دیتے اور بالخصوص سرکاری بنچوں کی جانب سے حکومتی سہولت اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر قانون سازی کی جاتی ہے، چاہے اس کا ادارہ جاتی سطح پر نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 18 ویں آئینی ترمیم میں پیرا میٹرز متعین کئے گئے۔ سینئر موسٹ جج کو چیف جسٹس کے منصب پر فائز کرنے کا اصول طے ہوا اور ججوں کے تقرر کے لئے پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمشن کی تشکیل ہوئی جبکہ اس آئینی طریق کار پر تمام سیاسی جماعتوں اور وکلاء تنظیموں میں اتفاقِ رائے بھی قائم ہوا۔ اب حکومت آئینی ترامیم لا کر چیف جسٹس اور ججوں کے تقرر کا طریق کار تبدیل کرنا چاہتی ہے اور سپریم کورٹ کے پہلے پانچ سینئر ججوں میں سے کسی ایک کا بطور چیف جسٹس تقرر چاہتی ہے۔ حکومت کی اس خواہش کا پس منظر بادی النظر میں یہی ہے کہ سینئر موسٹ جج سید منصور علی شاہ کا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بطور چیف جسٹس تقرر حکومت کو سُوٹ نہیں کر رہا چنانچہ یہ آئینی ترمیم لانے کا مقصد اپنی مرضی کے منصفِ اعلیٰ کا تقرر کرانا ہے۔ بلاشبہ ایسی حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے ہی سلطانیٔ جمہور کا چہرہ خراب ہوتا ہے اور اس میں کمزوریاں در آتی ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ محض اپنی سہولت کی خاطر 18 ویں آئینی ترمیم میں چھیڑچھاڑ نہ کی جائے، اس کی عملداری برقرار رکھی جائے اور اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں پر ’’فیورٹ‘‘ اور ’’اَن فیورٹ‘‘ کے لیبل لگانے سے گریز کیا جائے کیونکہ حکمرانوں کی ایسی خواہشات کا ملبہ ہی پورے سسٹم پر آن پڑتا ہے۔ 

مزیدخبریں