پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل پاکستان کے قومی ترانے کے دوران سفارتی آداب سے انحراف کرتے ہوئے اس کے احترام میں کھڑے نہیں ہوئے۔ قومی رحمتہ لعالمینﷺ کانفرنس میں قومی ترانہ شروع ہوتے ہی تمام شرکاء احترام میں کھڑے ہوگئے۔ افغان قونصل جنرل محب اللّٰہ شاکر قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہیں ہوئے۔ محب اللّٰہ شاکر کے ساتھی بھی احتراماً کھڑے نہیں ہوئے۔ اس تقریب میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور صوبائی کابینہ کے کچھ وزراء سمیت موجود تھے۔سرکاری ذرائع کے مطابق افغان قونصل جنرل کا قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہ ہونا سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔ سفارتی آداب کے تحت کسی بھی ملک کا سفارتی عملہ تعیناتی کے دوران میزبان ملک کے قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ دریں اثناء دفتر خارجہ نے قائم مقام قونصل جنرل کی جانب سے قومی ترانے کی بے حرمتی پر شدید ردعمل جاری کیاہے۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اس حوالے سے میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ میزبان ملک کے قومی ترانے کی بے حرمتی سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ افغانستان کے قائم مقام قونصل جنرل کا یہ اقدام قابل مذمت ہے، ہم اس معاملے پر اپنا شدید احتجاج اسلام آباد اور کابل میں افغان حکام تک پہنچا رہے ہیں۔
طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات تھے۔ طالبان اقتدار سے نکلے تو ان کے پاکستان کے اس دور کے حکمرانوں کے بارے میں تحفظات تھے جنہوں نے نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس کے رد عمل میں پاکستان بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا تھا۔پاکستان میں ٹی ٹی پی معرض وجود میں آئی جس کے بظاہر مقاصد پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی کوششیں تھیں۔ اس کی طرف سے امریکہ کے مفادات کو نشانہ بنانے کے اعلانات کئے گئے۔ شریعت کے نفاذ اور امریکہ کے خلاف اقدامات و بیانات کے باعث اسے پاکستان کے کچھ ہم خیال حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ ٹی ٹی پی نے کئی علاقوں میں اپنا تسلط قائم اور بعد میں مضبوط کر لیا۔کئی علاقے نو گو ایریاز بن گئے اور وزیرستان کے کئی علاقوں پر ان کی مکمل اجارہ داری ہو گئی۔ٹریننگ کیمپ بنا لیے گئے ،اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کی گئیں۔ ان کے پبلک مقامات پر حملوں میں تیزی آگئی۔فوجی تنصیبات اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔لاہور کراچی راولپنڈی ملتان جیسے بڑے اور کئی چھوٹے شہروں میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات ہونے لگے۔مہران نیول بیس پر اورین طیارے تباہ کر دیے گئے۔ جی ایچ کیو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر، سرگودھا کوئٹہ پشاور کامرہ جیسے ایئر بیسز پر حملے کر کے پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ آخر کار ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن ضرب عضب لانچ کیا گیا جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کی بڑی تعداد پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان پہنچ گئی۔
افغانستان میں امریکہ کا مکمل کنٹرول ہو چکا تھا۔پہلے حامد کرزئی اور اس کے بعد اشرف غنی اقتدار میں آئے۔دونوں کے بھارت سے مفادات وابستہ تھے۔ امریکہ کے کٹھ پتلی افغان حکمران پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھارت سے تعاون کرنے لگے۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف بری طرح سے استعمال ہوئی۔ٹی ٹی پی بلوچ علیحدگی پسندوں اور مذہبی شدت پسندوں کی بھارت فنڈنگ کرتا چلا آ رہا ہے۔
امریکہ افغانستان سے نکل رہا تھا تو افغانستان میں اقتدار طالبان سمیت دیگر گروپوں کو منتقل کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان نے بھرپور سفارت کاری سے اقتدار طالبان کو منتقل کروا دیا۔ امید تھی کہ ملا عمر کی حکومت کی طرح طالبان بھی پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کریں گے مگر افغان سرزمین بدستور پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ سرحد پار سے حملے جاری رہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے اور یہ سب کچھ طالبان حکومت کے تعاون سے ہی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور ایک مرتبہ تو افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا گیا۔
بھارت تعمیر نو کے نام پر افغانستان میں موجود ہے جو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔طالبان نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھارت اور ٹی ٹی پی کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کے باعث پاکستان افغانستان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت بدترین شکل اختیار کر سکتی ہے لیکن اس کا ادراک اور احساس کرنے کے لیے طالبان حکومت تیار نہیں ہے۔
بادی النظر میں پشاور میں ہونے والی کانفرنس کے دوران افغان قونصل جنرل اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونا سوچا سمجھا اقدام ہے۔گو کہ ترجمان افغان قونصلیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ترانے کی بے حرمتی اور بے توقیری ہرگز مقصد نہیں تھا۔ ترانے میں میوزک تھا اس لیے قونصل جنرل کھڑے نہیں ہوئے، ہم نے اپنے قومی ترانے پر بھی میوزک کی وجہ سے پابندی لگائی ہے۔ اگر ترانہ بغیر میوزک یا بچے پیش کرتے تو قونصل جنرل لازمی کھڑے ہوتے اورسینے پر ہاتھ بھی رکھتے۔افغان قونصلیٹ کا یہ وضاحتی بیان غیر منطقی جواز ہے۔جو قابل قبول نہیں ہو سکتا۔افغان طالبان پاک افغان سرحد پر باڑ توڑ کر پاکستانی پرچم پاؤں تلے روندتے رہے۔ کابل انتظامیہ کا اب تک کا طرز عمل پاکستان سے دشمنی والا ہی ہے۔
اصولی طور پر سب سے پہلے رد عمل خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اس کانفرنس میں موجود تھے۔ان کے دفتر یا صوبائی حکومت کی طرف سے مذمتی بیان جاری نہ کرنا افسوسناک ہے۔ ملک کی سلامتی خودمختاری اور قومی مفادات کا تحفظ ہر سیاسی جماعت اور ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ افغان قونصل جنرل کے اس اقدام پر افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کرکے پاکستان کا سفارتی عملہ ملک واپس بلوا لیا جائے۔ افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا گورنر سندھ کا مطالبہ جائز ہے۔