نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں سلیکشن کروا رہے ہیں ویسے نام تو الیکشن ہے لیکن درحقیقت یہ سلیکشن ہے کیونکہ جس طرح پیرا ملٹری فورسز کی تعیناتی ہوئی ہے اور جس خوف و ہراس کی فضا میں نام نہاد انتخابی عمل کیا جا رہا ہے اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کو ان کے آزادی جیسے اہم ترین اور بنیادی حق سے محروم رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں انسانوں کو زبردستی قید کر رکھا ہے۔ آرٹیکل تین سو ستر کو منسوخ کر کے بھارت نے عالمی قوانین کو روند دیا، بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلسل انسانی حقوق، عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کہ خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ دنیا اس ظلم پر خاموش ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا بھارت کو اس ظلم کا جواب دینا ہو گا اور حساب بھی دینا ہو گا۔ بھارتی حکومت طاقت کے زور پر اپنی مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان جعلی انتخابات کے بعد مقبوضہ کشمیر آزادی کی تحریک ختم ہو جائے گی، کیا کشمیری نوجوان بھارتی فوج کو وادی سے نکالنے کے لیے قیمتی جانوں کی قربانی دینے کا سلسلہ بند کر دیں گے، کیا کشمیری نوجوان ہتھیار پھینک دیں گے۔ یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ تحریک آزادی میں شدت آئے گی۔ نریندر مودی اور اس کے متعصب ساتھیوں کو مقبوضہ وادی سے بھاگنا ہی پڑے گا۔
نریندر مودی نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ختم نہ ہونے والی نفرت اور کشیدگی کا بیج بویا تھا اور آج بھی آزادی کے متوالے اپنی جانیں قربان کر کے بھارتی حکومت کے اس اقدام اور قابض بھارتی افواج کے خلاف میدان میں ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت نے الیکشن کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر کو چھاؤنی میں بدل دیا ہے اور بندوق کے زور پر اپنے امیدواروں کو کامیابی دلانے کی حکمت عملی اختیار کی جا چکی ہے۔ بی جے پی کے وزیر داخلہ امت شاہ نے آرٹیکل 370 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے "آرٹیکل 370 اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور یہ اب بحال نہیں کیا جا سکتا۔ اس بیان نے کشمیریوں کے غصے میں اضافہ کیا ہے۔
بھارت کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں پوری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ کشمیری آزادی مانگ رہے ہیں اور یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ بھارت طاقت کے زور پر اور عالمی طاقتوں کی بے حسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں کو آزادی جیسے بنیادی حق کو غصب کیے ہوئے ہے۔ آزادی کشمیریوں کا حق ہے اور وہ دن دور تو نہیں کہ جب مقبوضہ کشمیر کے رہنے والوں کو بھارتی فوج کے مظالم سے نجات ملے گی۔ اگر عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں نے آنکھیں نہ کھولیں، ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا تو پھر وہ وقت آئے گا جب دو ایٹمی طاقتوں کے مابین سب سے بڑا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے تو پھر کوئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق حل نہیں ہوتا تو پھر ایک وقت آئے گا جب دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں گی۔ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ ہر حال میں کھڑا رہے گا، پاکستان ہر سطح پر کشمیریوں کی آزادی کے مطالبے کی حمایت کرتا آیا ہے اور مستقبل میں کشمیریوں کی غیر متزلزل حمایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان حالات میں دنیا اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتی تو دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ چھڑنے کی صورت میں عالمی امن بھی تباہ ہو گا۔ لگ بھگ ڈیڑھ ارب لوگ براہ راست جنگ کا حصہ ہوں گے تو دنیا کیسے پرامن ہو سکتی ہے۔ بھارت کے حکمران یہ یاد رکھیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے لیے ہر آنے والا دن مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں ظالم بھارتی افواج کی نیندیں حرام ہو رہی ہیں۔ دی گارڈین نے بھارتی افواج کی مشکلات کو نمایاں کر کے نریندر مودی کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ دی گارڈین لکھتا ہے کہ انتخابات سے قبل کشمیر میں حریت پسندوں کے حملوں کی نئی لہر نے بھارتی افواج کو حیران کر دیا ہے۔ حریت پسندوں نے بھارتی فوجیوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں۔ حریت پسند پہلے سے کہیں زیادہ پْرعزم ہیں جبکہ بھارتی سکیورٹی فورسز کا مورال پست ترین سطح پر ہے۔ کشمیری مجاہدین جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہندوستانی افواج کشمیری مجاہدین کی گوریلا جنگی حکمت عملیوں سے حیران ہو گئی ہیں جس میں عسکریت پسند اپنے اہداف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں اور ناہموار پہاڑی علاقے میں غائب ہو جاتے ہیں۔ کشمیری مجاہدین اب بہت بہتر تربیت یافتہ ہیں اور جنگی ساز و سامان کی ترسیل کے لئے وادی کے اندر ڈرونز کا استعمال کرتے ہیں۔ مجاہدین باڈی کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے گھات لگانے کی فلم بناتے ہیں۔ ?ہندوستانی فوجی حکام ان عسکریت پسندوں کے بارے میں انٹیلی جنس جمع کرنے میں دشواری کا اعتراف کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا سراغ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ?نئے علاقوں میں گھات لگا کر حملے ہو رہے ہیں، جیسے کہ ہندو اکثریتی صوبہ جموں، جہاں پہلے حملے بہت کم ہوتے تھے۔ عسکریت پسندوں نے فوجیوں پر حملہ کرنے، غائب ہونے اور پھر دوسری جگہ حملہ کرنے کے لیے دوبارہ ابھرنے کے نئے حربے اپنائے ہیں۔ حریت پسند جدوجہد پر قابو پانے کے لیے ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کی سر توڑ کوششیں دہلی سرکار کے ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے جنکے مطابق کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد علاقے میں زندگی معمول پر آ گئی ہے۔ حریت پسند پہلے سے کہیں زیادہ پْر عزم ہیں جبکہ بھارتی سکیورٹی فورسز کا مورال پست ترین سطح پر ہے۔ دی گارڈین لکھتا ہے کہ بھارتی افواج نے عسکریت پسندوں کی حالیہ کارروائیوں سے پریشان ہو کر حکومت سے اضافی مدد مانگی ہے۔ بھارتی افواج نے حکومت سے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور وہ بہتر تربیت یافتہ ہیں، اسی لیے ہم حکومت سے اضافی مدد مانگ رہے ہیں۔ بھارتی افواج کے مطابق وہ بار ہم زیادہ خوفزدہ ہیں۔
دی گارڈین کی اس رپورٹ نے بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد وادی میں زندگی معمول پر آنے کے تمام جھوٹے دعوے بینقاب کر کے حقیقت دنیا کو بتا دی ہے۔ آج بھی
مقبوضہ وادی کا بچہ بچہ آزادی کا پرچم اٹھائے قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک عالمی تنازعہ ہے بھارتی حکومت نے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت تبدیل کر کے قانونی و اخلاقی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ کشمیر کو پاکستان سے جدا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے آج تک کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے آمرانہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارتی افواج کے مظالم اور سفاکیت کے خلاف جذبہ آزادی سے سرشار کشمیری عوام میدان میں ہیں اور پاکستان ہر سطح پر بھارتی افواج کے مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے۔ نریندر مودی طاقت کے بھرپور استعمال کی حکمت عملی کو اپنائے ہوئے ہے اور کشمیری نوجوانوں نے بھی اسے سبق سکھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی بدستور جاری ہے۔ بھارتی فوج نے ایک بار پھر ریاستی دہشتگردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ قابض بھارتی فوج نے نوجوانوں کو تلاشی اور محاصرے کی آڑ میں جعلی مقابلے میں شہید کیا۔ زیادہ سن نہیں گذرے قابض بھارتی فوج نے تین کشمیری نوجوانوں کو تلاشی اور محاصرے کی آڑ میں شہید کیا تھا۔
آخر میں شجاع خاور کا کلام
یہاں تو قافلے بھر کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
سبھی چلتے ہوں جس پر ہم وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں
قلم میں زور جتنا ہے جدائی کی بدولت ہے
ملن کے بعد لکھنے والے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں
کبھی سیراب کر جاتا ہے ہم کو ابر کا منظر
کبھی ساون برس کر بھی پیاسا چھوڑ دیتے ہیں
زمیں کے مسئلوں کا حل اگر یوں ہی نکلتا ہے
تو لو جی آج سے ہم تم سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں
مہذب دوست آخر ہم سے برہم کیوں نہیں ہوں گے
سگ اظہار کو ہم بھی تو کھلا چھوڑ دیتے ہیں
جو زندہ ہو اسے تو مار دیتے ہیں جہاں والے
جو مرنا چاہتا ہو اس کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں
مکمل خود تو ہو جاتے ہیں سب کردار آخر میں
مگر کم بخت قاری کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
وہ ننگ آدمیت ہی سہی پر یہ بتا اے دل
پرانے دوستوں کو اس طرح کیا چھوڑ دیتے ہیں
یہ دنیا داری اور عرفان کا دعویٰ شجاع خاور
میاں عرفان ہو جائے تو دنیا چھوڑ دیتے ہیں