جنگ کے اصل فریق 

اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ پر ’’پیجر بم‘‘ حملہ بالکل ہی انوکھی بات ہے اور یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا تائیوان کی وہ کمپنی اسرائیل سے ملی ہوئی تھی جس نے خصوصی آرڈر پر یہ پیجر حزب اللہ کیلئے بنائے ہوئے تھے؟۔ یعنی اس کمپنی نے اسرائیل کو ڈیٹا دیا کہ کس کس نمبر کے پیجر اس نے حزب کو دئیے ہیں ۔ ابتدا میں یہ خبر آئی کہ حزب نے یہ سیٹ ایران سے حاصل کئے ہیں۔ اگر یہ اطلاع درست تھی تو ایران نے پیجر تائیوان سے لے کر دئیے ہوں گے۔ حزب اللہ نے موبائل فون کا استعمال ترک کر دیا تھا کہ ان کا سراغ لگ جاتا ہے۔ پیجر انٹرنیٹ نہیں، وائرلیس پر چلتے ہیں۔ پھر موبائیل نیٹ ورک میں اس کا سراغ لگانا آسان نہیں لیکن یہ ’’حفاظتی تدبیر زیادہ خطرناک نتائج لے کر آئی۔ 
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ درجن افراد ان حملوں میں ہلاک ہوئے۔ جبکہ تین ہزار زخمی۔ اصل اعداد و شمار اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ غیر مصدقہ ہے لیکن اس کے مطابق زخمی چار ہزار ہیں۔ اسرائیل نے جب ’’بٹن‘‘ دبایا تو یہ تمام پیجر جو حزب والوں کے زیرِاستعمال تھے، بیٹری گرم ہونے سے پھٹ گئے، جن گوریلوں نے پیجر پتلون کی عقبی جیب میں رکھے تھے، ان کی رانوں، کمر اور پیٹ پر گہرے زخم آئے۔جن کی شرٹ کی جیب میں تھے، ان کے سینے اور گردن پر زخم آئے اور جو پیغامات کو قریب سے دیکھ رہے تھے، ان کے چہرے اُڑ گئے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ موبائل فون بھی پھٹے۔ 
اس حملے سے حزب کو ناقابل اندازہ نقصان پہنچا۔ حملے میں عام شہری بھی زخمی ہوئے لیکن ان کی تعداد کم ہے اس لئے کہ یہ وہ لوگ تھے جو کسی حزبی گوریلے کے قریب کھڑے تھے یا اس کے آگے پیچھے چل رہے تھے۔ اصل نشانہ حزب والے تھے اور پیجر انہی کے پاس تھے جو پھٹے۔ حزب کی جنگی قوت کا ایک اہم حصہ ان حملوں میں ناکارہ ہو گیا ہے۔ 
حزب کے سربراہ حسن نصراللہ نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ ان کی جماعت کے پاس ایک لاکھ تربیت یافتہ گوریلے ہیں لیکن یہ بیان دوتہائی مبالغے پر مبنی ہے۔ اصل میں حزب کے گوریلوں کی تعداد 30 ہزار ہے اور ان میں سے چند ہزار شام میں مصروف جنگ ہیں، کچھ (درجنوں کے حساب سے) عراق میں بھی موجود ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ایک قابل ذکر حصہ حزبی جنگجوئوں کا زخمی ہو کر میدان جنگ سے باہر ہو چکا ہے اور یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ 
ڈیڑھ دو ماہ پہلے تک حزبی جنگجوئوں کا ارتکاز جنوبی لبنان میں تھا لیکن پھر یہ خبریں آئیں کہ اسرائیل جنوبی لبنان پر حملہ کرنے والا ہے تو حزب کے زیادہ تر ارکان شمال کو روانہ ہو گئے۔ گاڑیوں کے بڑے بڑے قافلے بنا کر یہ لوگ جنوبی لبنان سے وسطی اور شمالی لبنان چلے گئے۔ جنوبی لبنان میں حزب کے گوریلے اب بھی موجود ہیں لیکن ان کی تعداد خاصی کم ہے۔ گویا اب اسرائیلی بمباری کا ہدف زیادہ تر جنوبی لبنان کے عام شہری ہوں گے۔ ادھر ، مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ، اسرائیل سرحدی بفر زون پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ بفر زون 2006ء کی جنگ کے بعد سے بنا تھا۔ درحقیقت یہ بفرزون فراڈ ہے۔ اس میں اقوام متحدہ کے لوگ کم اور اسرائیلی فوجی زیادہ ہیں۔ ایک طرف سے یہ قدرے کم، دوسری طرف سے بہت چوڑا ہے۔ اور اسرائیلی اسے ’’بفر‘‘ نہیں، سکیورٹی زون قرار دیتے ہیں۔ اس پر باضابطہ اسرائیلی قبضے کا مطلب ہے جنوبی لبنان کے لاکھوں لوگ اسرائیلی توپوں کے اور قریب آ جائیں گے۔ حزب اسرائیل کی نئی مارا ماری سے دامن بچا جائے گی، عوام مارے جائیں گے۔ 
گزشتہ دو سال سے بالعموم اور چند ماہ سے بالخصوص اسرائیل نے شام میں ایرانی اڈوں پر پے درپے حملے کئے ہیں لیکن حماص کے علاقے میں گزشتہ ہفتے اسرائیل نے جس ایرانی فوجی اڈے کو حملہ کر کے تباہ اور درجنوں ایرانی فوجی ہلاک کر ڈالے، وہ معاملہ ذرا چونکا دینے والا تھا۔یہ اڈا نہایت خفیہ تھا اور اکثر شامی فوجی افسر بھی اس سے بے خبر تھے، عوام کا تو پوچھنا ہی کیا، اسرائیل کو اس کی اطلاع کیسے ہوئی؟۔ ایرانی اخبارات میں گزشتہ دنوں یہ قیاس آرائیاں شائع ہوئیں کہ ایران اسٹیبلشمنٹ میں اسرائیل کے کچھ جاسوس گھسے ہوئے ہیں۔ 
اسرائیل غزہ کی طرف سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے اب جنوبی لبنان پر حملے کیلئے پر تول رہا ہے۔ ایک اسرائیلی وزیر گلنٹ نے اس منصوبے کی مخالفت کی تو وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسے کابینہ سے برطرف کرنے کی دھمکی دے دی۔ تنازعہ شمال کی طرف پھیلا تو چاہے نہ چاہے ، شام بھی اس کی زد میں آئے گا۔ شام کی حکومت کی مدد کیلئے عراق سے حملے ہوں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسرائیل عراق پر بھی کارروائی کرے گا۔ ایران کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اعلانات اور دھمکیاں دینے تک محدود رہے گا، ایسی کارروائی نہیں کرے گا جس کی وجہ سے اسرائیل اسے کبھی جنگ میں گھسیٹ لے۔ 
اسی ’’گرما گرم‘‘ ماحول میں دنیا غزہ کو بھولتی جا رہی ہے جہاں ہر روز سینکڑوں فلسطینی ہلاک کئے جا رہے ہیں۔ علاقے کے اختصار کے حساب سے اور ایک ننّھی منّی آبادی کے پیش نظر، نسبت تناسب کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔ اتنی کم آبادی والے کسی بھی اور علاقے میں اتنے زیادہ لوگ قتل نہیں کئے گئے۔ غزہ کا سارا رقبہ اب قبرستان بن چکا ہے۔ کہیں سے بھی جگہ کھودو، لاش نکلے گی۔ اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی الیکشن جیت گئے تو اس قتل عام میں اور تیزی آئے گی۔ وہ بائیڈن سے تین گنا نہیں تو دو گنا زیادہ اسرائیلی حامی ہیں۔ کمیلا ہیرس کے جیتنے کی صورت میں قتل عام کی یہی شرح برقرار رہے گی جو اب ہے۔ 
_____________
عدلیہ کا ادارہ پاکستان کی طرح دنیا کے ہر ملک میں احترام سے دیکھا جاتا ہے یا یوں کہئے کہ عدلیہ کا ادارہ باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی قابل احترام ہے۔ لیکن اب ایک نیا ادارہ دریافت ہوا ہے جس کا نام ’’ہماری عدلیہ‘‘ ہے۔ پی ٹی آئی کے قافلہ وکیلاں کے بزرگ کھڑپینچ نے دو تین روز پہلے ایک دھواں دار پریس کانفرنس حکومت کیخلاف کی اور الزام لگایا کہ حکومت ’’ہماری عدلیہ‘‘ کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ 
اس پریس کانفرنس کو نئی دریافت کا حصہ دوئم کہنا چاہیے۔ اصل دریافت بڑے خان صاحب عرف مرشد اڈیالوی نے کی تھی۔ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے انہوں نے اڈیالہ کے استراحت کدے سے ایک تحریری بیان جاری کیا تھا جس میں لفظ بہ لفظ ایک فقرہ کچھ یوں تھا کہ ’’حکومت پی ٹی آئی کے ججوں ‘‘ کو نشانہ بنا رہی ہے، چنانچہ حامد خاں نے اسی دریافت کے حصہ اوّل کو حصہ دوئم کی دریافت کے تکملے سے ملا کر دریافت کو مکمل کر دیا۔ 
تو تصویر سیاست کی تصحیح بھی ہو گئی۔ یہ تاثر غط ہے کہ حکومت کی جنگ مرشد اڈیالوی اور ان کی تحریک انتشار سے ہے۔ ایسی کوئی جنگ نہیں ہو رہی۔ دراصل جنگ حکومت اور ’’ہماری عدلیہ‘‘ کے درمیان ہے۔ آپ چاہیں تو انورٹڈ کاماز (قوسین‘‘ صرف ہماری کے لفظ کے اردگرد لگائیں، چاہیں تو دونوں الفاظ یعنی ہماری عدلیہ کے اردگرد لگا لیں، آپ کی مرضی ہے، فرق اس سے کچھ خاص نہیں پڑتا۔ 

ای پیپر دی نیشن