اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے آج بھی جو پیکج گردش کر رہا ہے وہ عارضی ہے، ڈرافٹ اس وقت تک فائنل نہیں ہوتا جب تک کابینہ کی منظوری نہ مل جائے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مشکور ہوں کہ انہوں نے موقع دیا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فروری کے آخر میں پیپلز پارٹی سے قانون سازی سے متعلق مذاکرات کیے گئے، یہ معاملہ آئینی ترمیم کا ہے، اس نے دو تہائی سے منظور ہونا ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ترامیم میں چارٹر آف ڈیموکریسی، بار کونسلز کی تجاویز اور سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ ہمارے ذہین میں خاکہ یہ ہے کہ آئینی عدالت کے 7 یا 8 ججز ہوں، آئینی عدالت میں تمام صوبوں اور اسلام آباد سے نمائندگی شامل ہو۔ کیا آئینی عدالت کی گنجائش ہمارے آئینی فریم ورک میں ہے یا نہیں، تمام بار کونسلز اپنے لیگل ایکسپرٹ کی کمیٹی بنا کر ہماری رہنمائی فرمائیں، میں آپ کا ہی حصہ ہوں، ہمیں تجاویز دیں کہ آئینی عدالت کا کس طرح کا ماڈل رکھا جائے۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ عدالتی ترامیم میں صرف چار چیزیں ہیں، باقی جو 40 چیزیں ہیں وہ آئینی عدالت کا نام جگہ جگہ شامل کرنے سے متعلق ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 9 اے میں ترمیم ہے جو صاف و شفاف ماحول سے متعلق ہے۔ وزیر قانون نے استفسار کیا کہ بتا دیں اعلیٰ عہدے پر بیٹھے جج کام نہ کریں تو ہم ان کو گھر نہ بھیجیں؟۔ جو جج کام نہیں کرتا اس کو جج رہنا چاہئے‘ کیا یہ قبول ہے‘ اگر وارننگ پر بھی جج قبلہ درست نہ کرے تو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھجوانے کی تجویز ہے۔ ججز کی عمر ہم نے 68 سال لکھی ہے، یہ تو نہ ہو کہ جس کو تعینات کریں وہ چار ماہ میں ریٹائر ہو جائے۔ وزیر قانون نے کہا کہ تجویز دی ہے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر کرے۔ جب جوڈیشل کمشن کا نمبر پورا ہو جائے گا، تب تقرریاں جوڈیشل کمشن کرے گا، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے وزیر قانون کے خطاب کے جواب میں کہا کہ کاش آپ نے آئینی پیکج کی تیاری سے پہلے ہم سے تجاویز مانگ لی ہوتیں، آج یہ ضرورت نہ پڑتی۔ فاروق حامد نائیک نے بھی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے ناکہ مردہ، زندہ دستاویز کا مطلب یہ کہ اس میں تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ وزیر قانون سے درخواست ہے مسودے کو حتمی شکل دیں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار سے شیئر کریں، ہم چاہتے ہیں کہ ایک اچھی سوچ ضائع نہ ہو جائے۔ وزیر قانون نے کہا وزارت قانون کو ایک ٹاسک دیا گیا کہ ایک مسودہ تیار کیا جائے، اسمبلی میں بل پیش ہوتا ہے تو اس پر بحث ہوتی ہے ، آئینی ترامیم دو تہائی سے ہونی ہے، قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس چل رہے تھے، ہم اتحادی حکومت میں بیٹھے ہیں۔ سویلینز کے حقوق کی شقیں بھی رکھی گئیں، فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی بات ہوئی، خیبر پی کے نے بہت قربانیاں دیں، آج بھی دے رہا ہے، اپیکس کمیٹی میں فوجی قیادت نے کہا نظام انصاف کی وجہ سے ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں، جوانوں کے بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ آج تک انسداد دہشت گردی عدالتوں سے کتنے ملزموں کو سزائیں ہوئیں، تمام شواہد کے باوجود ٹرائل کورٹ نے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو بری کر دیا، ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کو سزا دے دی گئی، بعد میں پتہ چلا کہ جج صاحب کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت نے فیصلہ کیا کہ معاملے کو سول سائٹ پر ڈیل کیا جائے، فیصلہ کیا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملے ہوتے ہیں تو فوجی عدالتیں ان معاملات کو دیکھ سکتی ہیں، وزیر قانون نے مزید کہا کہ جج کی عمر کی حد 65 یا 68 سال کرنے پر بار کونسلز چاہیں تو کمیٹی بھی بنا سکتی ہیں۔ ادھر سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف کیس کی جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کر دی گئی‘ یہ درخواست عابد زبیری سمیت دیگر وکلاء کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی‘ مؤقف اختیار کیا گیا کہ مجوزہ ترامیم بنیادی آئین کی خلاف ورزی ہیں، استدعا ہے کہ درخواست کو بینچ کی تشکیل کے لیے ججز کمیٹی کے سامنے رکھا جائے۔ وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں سپریم کورٹ الگ اور آئینی عدالتیں الگ ہوتی ہیں، آئینی معاملات آئینی عدالتوں میں جاتے ہیں تاکہ عام شہریوں کو انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ نہ آئے اور ان کے کیسز جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکیں۔ بدھ کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے وسیع تر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، تمام سیاسی جماعتوں نے نہ صرف آپس میں گفت و شنید کی بلکہ یہ کوشش کی کہ اس پر اتفاق رائے پیدا ہو۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں 9 مئی کے کیسز تک کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ وزیر قانون نے جو مسودہ تیار کیا اس پر پی ٹی آئی نے سیاست کی اور کہا گیا کہ ہمارے لیڈر کو باہر نکالیں پھر آئینی ترامیم پر بات ہوگی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئی این آر او ملنے نہیں جا رہا، اگر یہ سمجھتے ہیں کہ آئینی ترامیم پر انصاف کی فراہمی کو آسان بنانے اور انصاف کے حصول کو بہتر شکل دینے پر یہ اپنی ڈیمانڈ لے آئیں گے کہ ہمارے لیڈر کو چھوڑو، تو ان کی این آر او ملنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہی ہوں گے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہماری کوشش ہے کہ آئینی ترامیم کا متفقہ مسودہ ایوان میں لائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول کی روزانہ کی بنیاد پر بات چیت ہو رہی ہے‘ ہم ایک پیج پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمن زیرک سیاستدان ہیں کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس بی سی اے) کے صدر شہزاد شوکت نے حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم کے نکات کے حوالے سے کہا ہے کہ آئینی عدالت کے قیام پر سب کے ساتھ اتفاق کیا ہے لیکن ہمیں آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحفظات ہیں۔ سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اور ججوں کی مدت ملازمت، اس میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کی عمر نہیں بڑھائی جا رہی، یہ سب میڈیا میں جاری قیاس آرائیاں ہیں۔ ترامیم سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مولانا فضل الرحمان کے بغیر ہمارے نمبر پورے نہیں۔ انہیں آن بورڈ لینا ہوگا۔ ادھر آئینی پیکج پر بحث کے لئے بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی، کمیٹی سات روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا سپریم کورٹ بار کے اجلاس میں وکلا کے ساتھ اہم نکات پر اتفاق ہو گیا، آئینی پیکیج کا حتمی مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے وکلا کمیٹی کو دیا جائے گا۔ اتفاق کیا گیا کہ حتمی آئینی پیکیج کے مسودے میں وکلا کمیٹی کی آراء کو شامل کیا جائے گا، وکلا کی نمائندہ تنظیموں کے علاوہ کسی کو ہڑتالوں کی کال دینے کی اجازت نہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئینی پیکیج کے حوالے سے اعلامیہ متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے ، آئین کے بنیادی خدوخال سے متصادم ترمیم نہیں ہونی چاہئے۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ مختلف وکلا کونسل کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی، آئینی عدالت کی تشکیل وکلا سے مشاورت کے بعد کی جائے ، تریسٹھ اے میں عدالتی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کی جائے۔ مجوزہ ترامیم پر قائم کمیٹی میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین شامل ہوں گے۔ کمیٹی میں صوبائی بار کونسلز کے وائس چیئرمین اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین شامل ہوں گے، اس کے علاوہ کمیٹی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور جنرل سیکرٹری شامل ہوں گے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہاکہ خوشی ہوتی اختلاف رکھنے والے وکلاء آج آتے، اختلاف کرنے والے وفاقی وزیر قانون سے سوالات کرتے۔ وزیر قانون نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کا ایک مقصد آرٹیکل 184کے تحت سوموٹو اختیارات کا تعین کرنا ہے، مجوزہ آئینی عدالت میں تمام وفاقی ا کائیوں کی نمائندگی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس امر کی بارہا نشاندہی کی گئی کہ نظام انصاف کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا، ہمارے نوجوان قربانیاں دیتے ہیں۔ کیا جو وردی میں شہید ہوتے ہیں ان کی مائیں پاکستانی نہیں ہیں، ان کی جو بیوگان ہیں وہ ہماری بہنیں نہیں ہیں، ان کے جو بچے اور بچیاں یتیم ہوتی ہیں کیا ان کی رگوں میں سفید پانی دوڑتا ہے، خون نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات، بم دھماکوں، حملوں میں افواج کے لوگ اور سویلین شہید ہوئے ، ان میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے کتنی سزائیں ہوئی ہیں ؟۔ معروف قانون دان اور پی پی پی رہنما سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آئینی عدالت وقت کی ضرورت ہے ، مغربی جمہوریتوں میں آئینی عدالتیں موجود ہیں۔
پشاور؍ اسلام آباد (بیورو رپورٹ+ نوائے وقت رپورٹ) عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے مجوزہ آئینی ترامیم میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی کیلئے عدالتی اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔ پشاور میں مرکزی صدر ایمل ولی خان کی زیرصدارت مشاورتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں اجلاس میں موجودہ سیاسی صورت حال سمیت مختلف امور پر تفصیلی بحث ہوئی اور مرکزی مشاورتی کمیٹی نے اہم فیصلے کئے۔ مرکزی ترجمان انجینئر احسان اللہ خان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مشاورتی اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ آئینی ترمیم میں خیبر پی کے کے نام کو پختونخوا کردیا جائے، اگر ترمیم میں آئینی عہدیداروں کی مدت ملازمت میں توسیع ہوگی تو مخالفت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کسی بھی آئینی ترمیم کی مخالفت کریں گے جو شخصی آزادی کے خلاف ہو، آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی کارکنان کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی تجویز مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق اور جمہوری اصولوں کے خلاف کوئی بھی ترمیم قابل قبول نہیں، وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کے خلاف کسی بھی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، ان آئینی ترامیم کی حمایت کریں گے جو 1973ء کے آئین سے متصادم نہ ہو، ایسی ترامیم کی بھرپور مخالفت کریں گے جو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ پارلیمان کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دریں اثناء مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم پر حکومت کا مسودہ مکمل طور پر مسترد کردیا ہے، اب تو یہ بھی کہہ رہے ہیں یہ ہمارا مسودہ نہیں تھا، جو مسودہ پہلے فراہم کیا گیا تھا وہ کیا کھیل تھا؟۔ اسد قیصر کی رہائش گاہ پہنچنے پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے امیر جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسد قیصر کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ انہوں نے میرے بہت کھانے کھائے ہیں، کھانا کھانے آئے تھے کھا کر جارہے ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد وہ مسودہ کسی لحاظ سے قابل قبول نہیں تھا۔ یہ قوم سے بڑی خیانت ہوتی اگر اس کا ساتھ دیتے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اڈیالہ جیل میں مبینہ گفتگو پر جواب دینے سے گریز کیا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ عارف علوی اور رؤف حسن بھی ظہرانے میں شریک ہوئے۔ دریں اثناء وزیر داخلہ محسن نقوی نے فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ ملاقات میں آئینی ترمیم سے متعلق مشاورت کی۔ فضل الرحمن نے وزیر داخلہ کو آئینی ترامیم پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اسد قیصر کے گھر کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس وقت جو مسودہ آیا سب نے مسترد کیا۔ خواجہ آصف نے ایوان میں کہا کہ یہی وہ ڈرافٹ ہے جس کے مندرجات آئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا یہ وہ ڈرافٹ نہیں‘ یہ کوئی اور ڈرافٹ ہے۔ جو بھی ڈرافٹ ہے اس کو دونوں جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ڈرافٹ آ جاتا ہے تو پھر انشاء اﷲ اس پر بات کریں گے۔ یہ شکست کی بات نہیں ہو رہی۔ ہم چیزوں کو ڈسکس کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے متعلق بانی پی ٹی آئی کے الفاظ وہ کہہ رہے ہیں جو اختلاف چاہتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی ہی ہدایات ہیں جس کے تحت ہم جے یو آئی کے اتنے قریب آئے۔