چانسلر اور وائس چانسلرز


تحریر انور خان لودھی 
پنجاب میں یونیورسٹیوں کے چانسلر گورنر پنجاب نے خود کو حاصل اختیارات کی خفیف سی جھلک کیا دکھا دی، حکومتی حلقے انگشت بدنداں ہوگئے۔ کوئی اسے گورنر کا کھڑاک کہہ رہا ہے اور کوئی اسے راست اقدام۔ کھڑاک کا سوچنے والے یہ سوچ رہے ہیں گویا ابھی گورنر پنجاب یہ بھڑک مار دیں گے کہ وائس چانسلرز کی بارات نہیں جانے دوں گا۔ ایسا نہیں ہے بلکہ معاملات کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لینا ہوگا۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد وائس چانسلرز کا تقرر بھی صوبائی حکومت کا اختیار ٹھہرا۔ منسٹری کے بھیجے گئے ناموں کا وزیر اعلیٰ نے کبھی انٹرویو کرلیا اور کبھی سمری ایسے ہی رسمی منظوری کیلئے آگے چانسلر کو روانہ کردی جس کا منظور ہونا محض کارروائی ہوتا ہے۔ لیکن اس بار گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ کے منظور شدہ ناموں پر آنکھیں بند کر کے دستخط کرنے کی روائت توڑی ہے اور امیدواروں کا خود بھی انٹرویو کرکے کئی حلقوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ میرے قارئین کو یاد ہوگا کہ پنجاب میں 25 سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز مقرر ہونے ہیں جس کیلئے تین کیٹگریز یعنی سپیشلائزڈ، جنرل  اور ویمن یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو متعلقہ سرچ کمیٹیوں نے منتخب کیا۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ہر یونیورسٹی کیلئے تین تین ناموں پر مشتمل سمری منظوری کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوائی۔ ہر سمری میں اول نمبر پر امیدوار کا وزیر اعلیٰ نے خود انٹرویو کیا۔ چار جنرل یونیورسٹیوں میں سرچ کمیٹی کی جانب سیاول نمبر پر رکھے گئے نام وزیر اعلیٰ کو پسند نہ آئے تو ان یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی آسامیوں کو دوبارہ مشتہر کرنے کا فیصلہ کیا۔کسی "سیانے" نے مشورہ دیا کہ ری ایڈورٹائزمنٹ کی بجائے سمری میں دوسرے نمبر پر موجود شخصیات کو وی سی لگا دیں۔ تجویز مان لی گئی۔ چنانچہ یونیورسٹی آف ناروال، یونیورسٹی آف گجرات، جی سی یونیورسٹی لاہور اور آئی ٹی یونیورسٹی لاہور کی سمریوں میں رنر اپ امیدواروں کو بھی انٹرویو کیلئے وزیراعلی آفس بلایا گیا اور پھر تمام سمریاں منظوری کیلئے چیف منسٹر آفس نے گورنر پنجاب کو بھجوا دیں۔ ان کی منظوری توقع کے برعکس " ٹھک" کر کے نہ ہوئی۔ ایک دن، دو دن اور پھر کئی دن گر گئے، سمریوں پہ گورنر نے دستخط نہ کئے۔ جوں جوں دن گزر رہے تھے تو مجوزہ وائس چانسلرز کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کے سٹیک ہولڈرز کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ وسوسے بڑھ رہے تھے۔ سرچ کمیٹی کے اول قرار دئیے گئے امیدواروں نے خود کو نظرانداز کرنے کا دکھڑا چانسلر تک پہنچایا۔ کچھ اول قرار دئے گئے امیدواروں کی اعلیٰ سطح کی اپروچ کا ذکر چھیڑا گیا۔ بڑے ہوٹل کے قریب بڑی کوٹھی والے سیاستدان کی ایک امیدوار کیلئے بھاگ دوڑ ریکارڈ پر لائی گئی، سات سروں کا جلال بھی زیر بحث آیا، اور ان حلقوں کی دھمک کی بات چلی جن پر بات کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ جب کافی اسباب جمع ہوئے تو چانسلر نے اعلان کیا کہ وہ خود بھی امیدواروں کے انٹرویو کریں گے۔ اپنے گذشتہ کالم میں راقم نے ذکر کیا تھا کہ گورنر پنجاب وائس چانسلرز کے لئے بھیجے گئے سب ناموں سے سو فیصد مطمئن نہیں۔ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ پاور شئیرنگ کی کھسر پھسر دیواروں کو ایک عرصے سے سنائی دے رہی تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بارہا یہ اعلان کر چکی ہیں کہ وہ میرٹ پہ یقین رکھتی ہیں اور وائس چانسلرز کے تقرر کا سارا پراسیس سنجیدگی سے مکمل کر رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی نیک نیتی پر شک نہیں۔ انہوں نے ایک قابل افسر کو سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ مقرر کر رکھا ہے۔ محکمے نے اپنا کام بروقت اور دیانت داری سے کیا۔ پھر مسئلہ کہاں ہوا ؟ اس کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو خوردبین لگانا ہوگی۔ ان سیانوں کو بھی کھنگالنا چاہئے جنہوں نے نمبر ون امیدواروں کو نظرانداز کرنے کا فلسفیانہ مشورہ دیا۔ مانا کہ بھیجے گئے تین ناموں میں سے کسی کو وی سی نامزد کرنا وزیر اعلیٰ کا اختیار یے مگر ہر اختیار ضروری نہیں کہ استعمال بھی کیا جائے۔ سرچ کمیٹی بھی کہا سوچتی ہوگی کہ جسے ہم نے نمبر ون قرار دیا اس میں کیا خرابی نکل آئی۔ کسی نمبر ون امیدوار کو اگر سیاسی عدسے سے جانچ کر نظر انداز کیا گیا ہے تو اس پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ وائس چانسلر اہل علم ہوتے ہیں از حد سیاسی تو نہیں ہو سکتے۔ علاوہ ازیں دوسرے نمبر پر موجود امیدوار اگر وائس چانسلرز تعینات ہو جاتے ہیں تو نمبر ایک پہ ہوتے ہوئے بھی وی سی نہ لگنے والے امیدوار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ عدالتی جنگ بھی حکومت کیلئے نیک شگون نہیں ہوتی۔ ان سب حقائق کے باوجود ایک بات طے ہے کہ وی سی لگانا حکومت کا حق ہے۔ گورنر پنجاب عمومی طور پر حکومت کی بھیجی گئی سمریوں کو منظور کرنے کے پابند ہیں۔ چودہ دن تک سمری اپنے آفس رکھ کر اس پر کوئی اعتراض بنتا ہو تو اعتراض لگا کر حکومت کو " نصیحت" کر سکتے ہیں۔ حکومت اس نصیحت کو مان لے تو سمری میں تبدیلی کر کے  یا پہلی والی سمری کو بغیر ردوبدل کے از سر نو گورنر کو بھجواتی ہے۔ اس صورت میں گورنر دو ہفتوں میں اگر دستخط نہ بھی کرے تو سمری منظور ہو جائے گی۔ اندریں حالات ہنڈیا حکومت پنجاب ہی کی چڑھے گی،اس ہنڈیا کے بیچ چوراہے پھوٹنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ وائس چانسلرز کے امیدواروں کے انٹرویو گورنر پنجاب کو کیوں کرنے پڑے؟ بادشاہوں کے رموز بادشاہ جانیں۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ وائس چانسلرز اپنی عملیت اور فعالیت کے معاملے میں چانسلر کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر مجوزہ ماتحتوں کو تقرر سے پہلے بلا کر ان سے بات چیت کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ وائس چانسلر لگنے سے پہلے گورنر ہاؤس کی سیر بھی خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ وائس چانسلرز وزیر اعلیٰ پنجاب کے لگائے ہی لگیں گے۔ گورنر پنجاب کی تھپکی ان اہل علم کا حوصلہ بڑھائے گی۔ چانسلر کا وائس چانسلرز سے اعتماد کا لیول جتنا اونچا ہوگا " دو طرفہ تعاون" اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی امیدوں کے محور گورنر پنجاب یونیورسٹیوں کے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اولاد خودمختار بھی ہو تو کئی موقعوں پر باپ کی ضرورت رہتی ہے اور بعینہ? باپ کو اولاد کی۔

ای پیپر دی نیشن