پس آئینہ
خالدہ نازش
بعض اوقات حادثات ، حالات یا واقعات انسان کو وہ بنا دیتے ہیں جس کا اس نے کبھی خواب نہیں دیکھا ہوتا ، جس کے بارے میں کبھی سوچا نہیں ہوتا ، جس کی اس کی زندگی کے سلیبس میں کہیں جگہ نہیں ہوتی - مگر کوئی حادثہ یا واقعہ آؤٹ آف سلیبس کام کی طرف لے جاتا ہے - کچھ ایسا ہی سوال جب ایک حادثے میں دونوں ٹانگیں کھو دینے والے ایک مشہور پینٹنگ آرٹسٹ سے پوچھا گیا کہ پنتالیس سال کی عمر میں حادثے کے بعد پینٹنگ شروع کرنے سے پہلے وہ کہاں تھے ؟ کیا کرتے تھے ؟ کیا وہ حادثے کا انتظار کر رہے تھے ؟ تو اس کا کہنا تھا کہ ? اس سے پہلے تو میں نے زندگی کو کبھی سیریز لیا ہی نہیں تھا - مفت میں ملی زندگی کی کوئی قدر تھی اور نہ ہی وقت کی - مگر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی حادثے کے بعد زندگی اور وقت کی قدر نہ کرنے کا بدلہ خود سے اس صورت میں لینے کی ٹھان لیتے ہیں کہ اب وہ دوسروں سے اپنی قدر کروائیں گے - حادثے سے پہلے کسی کو خبر نہیں تھی کہ میں بھی اس دنیا میں وجود رکھتا ہوں - آج میری پینٹنگز لاکھوں میں بکتی ہیں اور میں اس رقم کا ایک بڑا حصّہ معذور بچوں پر خرچ کرتا ہوں - دنیا مجھے جانتی ہے - مشکل حالات ، کوئی حادثہ یا واقعہ انسان میں کوئی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے - قدرت نے کچھ لوگوں سے کچھ کام لینے ہوتے ہیں ، کس طریقے سے ؟ معجزانہ طور پر کسی کو بچا کر ، آزمائش میں ڈال کر یا آزمائش سے نکال کر یہ قدرت ہی جانتی ہے - ایک ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مالک نے جو یتیم معذور بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ایک بہت بڑا ادارہ چلانے کے ساتھ ساتھ زندگی سے مایوس لوگوں کو زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے موٹیویشنل سپیکر کا کام بھی کر رہا تھا نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا اور اپنی زندگی کی داستاں سناتے ہوئے بتایا کہ وہ میری زندگی کا آخری دن تھا ، میں اپنی جان لینے کا پورا بندوبست کر کے ایک ویران پارک میں بنچ پر بے جان جسم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک بزرگ میرے پاس آ کر بیٹھ گے ، میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا ، تھپکی دی ، میری طرف دیکھتے ہوئے چہرے پر ایک دبی مسکراہٹ لائے اور کچھ بولے بغیر چلے گے - میں ایک سکتے کی کیفیت میں انہیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا - میں اپنے حالات سے تنگ اور مسائل میں ایسے گھیرا ہوا تھا کہ مجھے کوئی اپنا ہمدرد ، کوئی دوست رشتہ دار اپنا نہیں لگتا تھا - میرے گرد مسائل کی گرفت اتنی تنگ ہو چکی تھی جس نے میرے حوصلے کو توڑ دیا تھا اور میں ہتھیار ڈال کر اپنی ہار ماننے کو تیار تھا - میں صبح گھر سے نکلتا دیوانوں کی طرح گلیوں ، سڑکوں بازاروں کا چکر لگاتا اور شام کو ایک لٹے مسافر کی طرح گھر لوٹ جاتا - میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ناکام ہو جاتا - میں پانچ بار ناکام ہو چکا تھا - مجھ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی - مگر کیا کوئی ہلکی سی تھپکی ، کسی ہاتھ کا لمس یا ہلکی سی مسکراہٹ بھی حوصلے کا پہاڑ بن کر روح میں اتر سکتی ہے ؟ میں یہ نہیں جانتا تھا - میں سکتے سے باہر آیا تو میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کوئی بھی نہیں تھا مگر وہ بزرگ کہاں چلے گے ؟ میں نے سوچا ، میں اٹھا اور تیز تیز اسی طرف چلنا شروع کر دیا جس طرف وہ بزرگ گے تھے - میرے سامنے ایک گھاٹی تھی جس پر پہنچ کر میں بیٹھ گیا - وہ بزرگ اب مجھے کبھی نہیں مل سکیں گے ؟ میں نے خود سے سوال کیا - میں بھول گیا تھا کہ آج تو میری زندگی کا آخری دن تھا - میں خود کشی کرنے والا تھا - میں کئی مہینوں بعد اس رات گہری نیند سویا تھا - میں صبح اٹھا تو میں نے اپنے اندر زندگی کی رمق پائی اور خود سے پوچھا کل میں مرنے جا رہا تھا مگر کیوں ؟ میرے اندر سے مرنے کا خیال نکلنے لگا اور آہستہ آہستہ میں پھر زندگی کی طرف لوٹنے لگا - میں نے اپنے دوستوں سے کچھ پیسے اکٹھے کیے اور بچوں کے ریڈی میڈ گارمنٹس کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی جسے بڑھاتے بڑھاتے آج میں یہاں تک پہنچا ہوں - میں خود سے پوچھتا رہتا ہوں میں بچ کیسے گیا ؟ اگر وہ بزرگ نہ آتے تو آج میرا نام و نشان نہ ہوتا کیا قدرت نے مجھے بچانے کے لیے ان بزرگ کو بھیجا تھا ؟ کیا قدرت نے مجھ سے یہ سب کام لینا تھا ؟ تو پھر میں اس سے پہلے مر کیسے سکتا تھا ؟ اور اگر قدرت نے کسی سے کوئی کام لینا ہو تو پھر کوئی تھپکی ، کوئی ہلکی سی مسکراہٹ ، کوئی اشارہ کوئی وکٹری کا نشان بھی معجزانہ طور پر اسے بچا لیتا ہے - موت کو بہت قریب سے دیکھ کر بچ جانے والے لوگوں کا نہ صرف یقین پختہ ہو جاتا ہے بلکہ وہ اللّہ تعالیٰ کی ذات سے مایوسی پر اس سے معافی بھی مانگتے رہتے ہیں اور عام لوگوں کی نسبت زندگی کی صحیح معنوں میں قدر بھی کرتے ہیں ، کسی مقصد کے تحت زندگی گزارنے لگتے ہیں - 22مئی 2020 ء کو پی آئی اے کا طیارہ کراچی میں آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا تھا - سول ایوی ایشن کے ترجمان کے مطابق اس ائیر بس اے 320 طیارے میں عملے سمیت 99 مسافر سوار تھے - 97 مسافر ہلاک ہو گئے تھے اور دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے تھے جن میں ایک ظفر مسعود بنک آف پنجاب کے صدر تھے جو اپنے معجزانہ طور پر بچ جانے پر خود حیران تھے - ان کا کہنا تھا کہ طیارہ دو بار زمین سے ٹکرایا - اس سے پہلے کہ مسافر کچھ سمجھ سکتے طیارہ دوبارہ فضا میں بلند ہو گیا جو خلاف معمول تھا ، میں پہلی سیٹ پر ہونے کی وجہ سے ہر چیز سے لا علم تھا لیکن میں ائیر ہوسٹسز کو پریشان ہوتے دیکھ سکتا تھا انہوں نے قرآنی آیات پڑھنا شروع کر دیں تھیں ، پھر اچانک جہاز کا رْخ نیچے کی جانب ہو گیا - میں نے خود سے پوچھا کیا جہاز گرنے والا ہے اور میں مرنے والا ہوں ؟ اتنے میں میرے اندر سے آواز آئی ، نہیں یہ تمہارا وقت نہیں ہے تم مرو گے نہیں - میں نے سوچا ایسا کیسے ہو سکتا ہے جہاز گر رہا ہے اور میں بچ جاؤں ، اس دوران میں بے ہوش ہو گیا - ہوش میں آنے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ میری سیٹ جہاز سے نکل کر ایک گھر میں جا گری تھی - جب ظفر صاحب سے پوچھا گیا تھا کہ اس حادثے نے ان کی زندگی کو کتنا بدل دیا ہے ؟ تو ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اللّہ نے مجھے کیوں زندہ رکھا ہے ؟ بس میں پہلے سے بھی زیادہ درست کام کرنے کی لگن رکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میرے بچ جانے کے پیچھے ضرور قدرت کا کوئی راز ہو گا معجزانہ طور پر بچ جانا زندگی میں مطلب لے آتا ہے ، زندگی کی کہانی کو دلچسپ بنا دیتا ہے - ایسی بہت سی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں کچھ بڑا کرنے والوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی حادثہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے ، خواہ وہ اس کی ناکامیوں کی کہانی ہو یا محرومی ، مایوسی اور نظر انداز کیے جانے کی کہانی ہو- ایسی کوئی بھی کہانی سٹیو جابز کو ایپل کمپنی کا بانی اور پتوکی کے ارشد ندیم کو گولڈ میڈلسٹ بنا دیتی ہے -
جون ایلیاء نے کہا تھا
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے