اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے ڈیپوٹیشن پر لگے افسر کو اختیار نہیں وہ ڈکٹیشن دے‘ ہم نے (اے این ایف او) کو ادھار پر افسر دیا ہے۔ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں اور وہ کام نہ کریں جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کچھ لوگوں کو تکلیف ہے میں صدر زرداری کے ساتھ کیوں ہوں۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت صحت انشورنس سکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اے این ایف (افسر کا نام لئے بغیر) کی طرف سے موسیٰ گیلانی کے خلاف مقدمہ کا ذکر کیا اور کہا انہیں بتایا گیا ہے میرے بیٹے موسیٰ گیلانی کو ملزم قرار دے دیا گیا ہے۔ ادھار پر لئے ہوئے افسر کے پاس اختیار نہیں ہوتے۔ کچھ لوگوں نے مجھ سے گذشتہ 4 سال میں ملاقات کرنے والوں کی فہرست مانگی میں نے ان سے کہا آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہیں۔ سویلین ملازمت میں ایسے کام نہ کریں جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یاد رکھیں کہ ہم نے آپ کو ادھار افسر کے طور پر دیا ہوا ہے۔ اے پی اے کے مطابق وزیراعظم نے کہا قائداعظمؒ کے ساتھیوں پر کرپشن کا الزام لگا کر نااہل قرار دیا گیا جبکہ 56ءکے آئین میں قائداعظمؒ کے ساتھیوں نے صدر کو استثنیٰ دیا۔ آئی این پی کے مطابق وزیراعظم نے کیمیکل کوٹہ کیس میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے تفتیشی افسر بریگیڈیئر فہیم کو ”وارننگ“ دیتے ہوئے کہا مجھے بتایا گیا ہے میرے بیٹے کو ملزم قرار دے دیا گیا ہے جبکہ مجھ سے گذشتہ چار برسوں میں ملاقات کرنے والوں کی لسٹ مانگی گئی۔ یاد رکھیں آئین اور قانون کے دائرہ میں رہیں اور ایسے کام نہ کریں جو پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ سویلین حکومت میں رہتے ہوئے سویلین آئین و قانون پر چلنا ہو گا۔ جب سے حکومت میں آئے نجومی اور ٹرینڈ سنٹر جانے کی تاریخیں دے رہے ہیں، سونامی کا نعرہ لگانے والوں کا حشر ضمنی انتخابات میں لوگوں نے دیکھ لیا، حکومت میں رہتے ہوئے عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام دنیا میں سب سے بڑا پروگرام ہے جس کو عالمی ادارے بھی مالی امداد دے رہے ہیں، یہ پروگرام سیاست سے بالاتر ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہمیں چار سال تک کہا جاتا رہا آپ کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے رہے آپ کی حکومت دو سال بھی نہیں ٹک سکے گی۔ اب پھر کہا جا رہا ہے حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا 2008ءمیں پہلی مرتبہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اعلان کیا، صوبوں نے اس کی نقل کی لیکن چل نہ سکے۔ آن لائن کے مطابق انہوں نے کہا پیپلز پارٹی کی منزل اقتدار نہیں بلکہ بھٹو کا مشن ہے۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام غربت کے خاتمے کے لئے دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے، اس پروگرام میں شامل ہونے کے لئے کسی سفارش کی ضرورت نہیں۔ صوبوں نے بھی اس پروگرام کی قنل کرنے کی کوشش کی لیکن چل نہیں سکے۔ اس پروگرام کے ذریعے 30 لاکھ بچوں کو مفت تعلیم دیں گے۔ انہوں نے کہا پہلی مرتبہ ہر سیاسی پارٹی کی طرح سیاسی انداز میں ہر رکن اسمبلی کو 8 ہزار فارم دئیے جس پر ہمیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ سیاسی پروگرام ہے۔ تنقید کے بعد صدر نے پوچھا آپ نے اپوزیشن اور فاروق لغاری کو بھی فارم دے دئیے ہیں تو میں نے کہا فاروق لغاری جب اپنے ورکروں مں فارم تقسیم کریں تو یہ کمپنی کی مشہوری ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا غریب بیماری میں علاج نہیں کرا سکتا اور گھر کا سربراہ ختم ہو جائے تو گھر تباہ ہو جاتا ہے لیکن اب علاج بھی ہو گا اور سربراہ کی وفات پر بیمہ کی رقم بھی دی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا پاکستان بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ٹیم کو جنہوں نے قرارداد پاکستان کی حمایت کی اور ملک بنایا انہیں 11 سال بعد 1958ءمیں یک جنبش قلم کرپٹ قرار دے کر نااہل قرار دیا گیا لیکن آج بھی لوگ قائداعظم کا نام عزت سے لیتے ہیں ایوب خان کا نہیں، اس کے بعد 1956ءکا آئین بھی 1958ءمیں ختم ہو گیا اور انڈر 19 ٹیم کے ساتھ پاکستان چلتا رہا اور بھارت ترقی کرتا رہا جبکہ ہم پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے کہا بھٹو کا قصور یہ تھا سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کو 1973ءکا آئین دیا، اگر یہ آئین نہ ہوتا تو ملک قائم نہ رہتا۔ انہوں نے کہا سونامی لانے والوں کا حشر قوم نے ضمنی الیکشن کے دوران دیکھ لیا اب پھر دن گنے جا رہے ہیں۔ وقت نیوز کے مطابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے وزیراعظم گیلانی سے ملاقات کی جس میں توہین عدالت کیس اور آئینی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق نئی سیکرٹری قانون مسز یاسمین عباسی نے بھی وزیراعظم گیلانی سے خیرسگالی ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا مسز یاسمین عباسی کی سیکرٹری قانون کی حیثیت سے تعیناتی خواتین کو بااختیار بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم گیلانی سے آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود نے بھی ملاقات کی اس موقع پر وزیراعظم نے کہا جہاں ہم پاکستان، بھارت مذاکرات کے حامی ہیں وہیں ہماری یہ خواہش بھی ہے مذاکرات میں کشمیریوں کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے، مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی مرضی و منشیا کے مطابق حل کرنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر آواز بلند کرتا رہے گا۔