ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ اگر ایک نظر پرویز مشرف کی زندگی پر ڈالی جائے تو وہ تنازعات، ٹکراﺅ جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کارگل سے لیکر محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت تک ان سے منسوب جتنے بھی واقعات ہیں سب پراسرار ہیں۔ آج تک کارگل کے ذمہ ذار کا تعین نہیں ہو سکا۔ آج تک محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے اصل چہروں کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جنرل مشرف کی زندگی ہنگاموں سے بھرپور ہے تو غلط نہ ہو گا۔ عدالت کی جانب سے ان کی ضمانت منسوخ کئے جانے کے بعد وہ جس طرح چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے وہ بذات خود ایک دلچسپ سوال ہے۔ کہتے ہیں اسلام آباد کا ایک ایس ایس پی جب چک شہزاد میں انکے گھر گرفتاری کیلئے گیا تو اسے اندر ہی نہیں گھسنے دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس کو انکی گرفتاری کیلئے ان سے اجازت لینے کی ضرورت ہے۔ جب وہ اپنے سکیورٹی گارڈوں کی حفاظت میں عدالت سے روانہ ہو رہے تھے تو کسی بھی سکیورٹی ادارے نے انہیں روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ کیا اسے انکی شخصیت کا دبدبہ کہیں گے۔ سکیورٹی اداروں کی کمزوری کہیں گے یا نہ نظر آنیوالے مہربانوں کی مہربانی اس کے پیچھے کیا راز تھا یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ فوج نے خود کو اس معاملے سے الگ تھلگ رکھنے کی پوری شعوری کوشش کی ہے۔ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے اس موضوع پر خاموشی اور سابق جنرل کے گھر سے رینجرز کو ہٹا لینا دراصل اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ فوج دانستہ یہ پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ اسکا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ اس معاملے میں مداخلت کے موڈ میں ہیں۔ اب صورتحال یوں ہے کہ سابق مرد آہن الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں۔ چاروں حلقوں سے انکے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جا چکے ہیں۔ اب انکے پاس خاصا وقت ہے کہ وہ چک شہزاد میں ٹینس کھیلیں، سوئمنگ کریں یا موج مستی کریں لیکن یہ طے ہے کہ فی الحال ان کا اس انتخابی دور سے تعلق ختم ہو کر رہ گیا ہے لیکن انکا پاکستان کی سیاست سے بھی تعلق ختم ہو گیا ہے۔ اس کا جواب آنیوالے وقتوں میں ملے گا کیونکہ سردست ایسا لگتا ہے کہ جن قوتوں نے انہیں پاکستان بلایا ہے انہوں نے انہیں اس طرح بے دست و پا رہنے کیلئے نہیں بلایا بہرحال انکی تقدیر کا فیصلہ جلد آنیوالے دنوں میں ہو جائیگا۔
اب آئیے: تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان انتخابی معرکے پر۔ میں گزشتہ کالم میں پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے تفصیلاً لکھ چکا ہوں اور میری ذاتی رائے ہے کہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم کے بعد عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کو کم از کم لاہور کی سطح پر تو واک اوور دے دیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا یہ کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں جس طریقے سے ٹکٹوں کی بندر بانٹ کی گئی ہے اس کا خمیازہ بہرحال عمران خان کو بھگتنا پڑیگا۔ ایسا لگتا ہے کہ علیم خان کسی خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد صرف عمران کی شکست نہیں بلکہ تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کو ہمیشہ کیلئے تباہ کر دینا ہے۔ علیم خان نے تحریک انصاف کے تابوت میں آخری کیل اعجاز چودھری سے ٹکٹ واپس لے کر میاں اسلم اقبال کو دے کر ٹھونک دی۔ میاں اسلم اس حلقے سے آزاد امیدوار تھے۔ مجھے اب تک یہ منطق نہیں سمجھ آئی کہ اچانک ایسی کون سی مجبوری آن پڑی تھی جس کے سبب اعجاز چودھری سے ٹکٹ واپس لیا گیا۔ P.T.I کی حماقتوں کے برعکس مسلم لیگ ن نے لاہور میں ٹھونک بجا کر ٹکٹیں دی ہیں۔ مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے اختر رسول کو ٹکٹ دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ انہوں نے ٹکٹوں کے فیصلے اپنی ذاتی پسند ناپسند اور انا سے بالا ہو کر کئے ہیں۔ اختر رسول کو ٹکٹ دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ اختر رسول اسی حلقے سے امیدوار ہیں جہاں سے PTI کے قائد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یوں اس حلقے میں کرکٹ کے کپتان کا مقابلہ ہاکی کے کپتان سے ہو گا۔ اختر رسول اس حلقے میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ پانچ بار وہاں سے منتخب ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور ق کے صدر رہ چکے ہیں۔ انہیں عوام کو ساتھ لے کر چلنا آتا ہے۔ عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا آتا ہے۔ پرانا مزنگ اور اسکے اردگرد کے علاقوں کے مزاج کو وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ علیم خاں نے اس حلقے سے ایک ایسے شخص کو ٹکٹ سے نوازا ہے جو تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے پر ہی تیار نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ علیم خان عمران خان سے اپنی کسی خاص توہین کا بدلہ لے رہے ہیں جبکہ میاں نواز شریف نے لاہور میں ماجد ظہور اور وحید گل جیسے کارکنوں کو ٹکٹ دے کر کارکنوں کا مورال بلند کر دیا ہے۔ ماجد ظہور اور وحید گل بہت نچلی سطح کے کارکن ہیں اور وہ محنت کرکے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف نے ان انتخابات میں خود کو چاروں صوبوں کا لیڈر منوا لیا ہے۔ انکے فہم و فراست پر مبنی فیصلوں نے نہ صرف مخالفین کو مشکل میں ڈال دیا ہے بلکہ ورکر کلاس کے دل جیت گئے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں تنکا تنکا جوڑ کر بالآخر ایک مضبوط اتحاد بنا ہی لیا ہے۔ آئندہ انتخابات میں انکی کامیابی یقینی نظر آتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن ایک بار پھر قوم کی قیادت کرتی نظر آئیگی۔
مجھے امید ہے کہ میاں نواز شریف کی ولولہ انگیز قیادت ملک کو درپیش چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کریگی قوم کو ظلم و جبر کے، مہنگائی کے، بے روزگاری کے، دہشت گردی کے، ناانصافی کے بھنور سے نکالے گی۔ یہاں میں قوم سے بھی یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ انتخابات کی صندوقچی کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس بات کا احساس ضرور کرے کہ اس کا ایک غلط فیصلہ ملک کو کتنا پیچھے لے جاتا ہے۔ ووٹ ڈالنے سے پہلے کاش ہم اس بات کا ادراک کر سکیں کہ ہم مسائل کے بھنور میں پھنسے ہوئے بے بس لوگ ہیں۔ خودکشیاں ہمارے سر پر چڑھ کر ناچ رہی ہیں۔ دہشت گردی کی موت ہمارے سامنے منڈلا رہی ہے اگر ہم نے آنیوالے چیلنجز کا مشکلات کا امتحانات کا حقیقی ادراک نہ کیا تو پھر ہماری تباہی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہوں گے۔