پاکستان پرچی کے ذریعے معرض وجود میں آیا تھا۔ جمہوری نظام کا تسلسل اگر بغیر رکاوٹ قائم رہتا تو ہمارا سماج متحد، منظم اور مربوط ہوتا۔ آمریت نے ریاست کا تانا بانا ہی تباہ کرکے رکھ دیا۔ آمروں نے جو چاہا کیا مگر بدنام جمہوریت کو کردیا۔سیاستدانوں نے بھی حقیقی جمہوریت کی بجائے آمری جمہوریت کو رواج دیااور عوام کو ربڑ سٹیمپ بنادیاجو بوقت ضرورت ووٹ کی پرچی پر ٹھپہ لگاسکیں۔ آمروں نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب کی بجائے بندوق پکڑا دی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام 11مئی کو بیلٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے جارہے ہیں جبکہ انتہا پسند بُلٹ کے ذریعے جمہوری نظام کی بساط ہی لپیٹ دینا چاہتے ہیں۔ طالبان نے لبرل جماعتوں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو کھلا چیلنج دے رکھا ہے۔ اب تک ایم کیو ایم اور اے این پی کے انتخابی اُمیدوار دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ کیا اس طرح غیر جانبدار ، صاف اور شفاف انتخابات ممکن ہوسکیں گے۔ انتخابی میدان سب سیاسی کھلاڑیوں کیلئے مساوی ہونا چاہیئے تھامگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ لبرل جماعتیں انتخابی جلسے کرنے سے قاصر ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور مذہبی سیاسی جماعتیں کسی خوف کے بغیر آزادی کے ساتھ جلسے کرسکتی ہیں۔ طالبان لبرل جماعتوں کو سیاسی میدان سے باہر رکھ کر انہیں سیاسی شہید کیوں بنانا چاہتی ہیں؟
بلوچستان کے عوام کو تاریخ کا سنہری موقع مل رہا ہے اور وہ پرچی کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ عدلیہ آزاد ہے چیف جسٹس اور وزیراعظم پاکستان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ الیکشن کمشن خودمختار ہے اس پر کسی ادارے کا دباﺅ نہیں ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بلوچستان کا ہنگامی دورہ کرکے قوم پرست رہنماﺅں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پرامن، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کیلئے حالات ساز گار بنائے جائینگے۔ بلوچستان میں ایک جانب سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب علیحدگی پسند انتخابی عمل کو ڈسٹرب کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بی ایل ایف کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر نے کہا ہے ”انتخابات مرکزی حکومت کا ہتھکنڈہ ہیں جس کا مقصد بلوچ عوام کی آواز اور مطالبات کو دبانا ہے“۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل دباﺅ کا شکار ہیں۔ انتہا پسند انکو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بیلٹ سے نہیں بلکہ بُلٹ سے بلوچستان کے مسائل حل ہونگے۔ اس دباﺅ کے باوجود اختر مینگل، حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالمالک اور طلال بگٹی انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں اور بیلٹ کو موقع دینا چاہتے ہیں۔ ان قوم پرستوں کا فیصلہ انکی سیاسی بصیرت کا ثبوت ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر کہتے ہیں کہ اختر مینگل انتخابات میں حصہ لے کر اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کررہے ہیں جس نے بلوچ نوجوانوں کو قتل یا لاپتہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نذر چونکہ پہاڑوں میں بیٹھے ہیں اس لیے ان کو شاید بدلتے ہوئے حالات کا اندازہ نہیں ہے جن میں جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی سوچ تبدیل کی ہے اور ریاستی امور میں مداخلت کو کم کیا ہے اور شفاف انتخابات میں سنجیدہ نظر آتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے صوبائی خودمختاری میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ نئے امکانات سے فائدہ اُٹھانا بلوچ قیادت کا کام ہے۔ اگر بلوچ عوام برچھی چھوڑ کر پرچی کی جانب آجائیں تو وہ حکومت بنا کر اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہر مسلح جدوجہد کا حل آخر کار سیاسی مذاکرات سے ہی نکلتا ہے۔ بلوچ نوجوان انتخابی عمل کا حصہ بن کر اپنی رائے ساری دنیا پر ظاہر کرسکتے ہیں اور اپنے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرکے صوبائی معاملات انکے حوالے کرسکتے ہیں۔ بلوچ لبریشن فرنٹ (اللہ نذر) کے علاوہ بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی اور بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ بھی آزاد بلوچستان کیلئے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ اللہ نذر نے غیر قبائلی علاقوں میں بھی اپنے نیٹ ورک کا اثرو رسوخ بڑھالیا ہے۔ ان علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اللہ نذر کا پس منظر قابل غور ہے۔ اس کا تعلق شکئی ضلع آوارانکے متوسط خاندان سے ہے اس کی تاریخ پیدائش 1968ءہے۔ اس نے محنت سے تعلیم حاصل کی اور میرٹ پر بولان میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرلیا۔ 1999ءمیں اللہ نذر کو گائینکالوجی میں گولڈ میڈل دیا گیا۔ وہ بی ایس او میں متحرک رہا۔ 2002ءمیں بی ایس او کا علیحدہ گروپ قائم کرلیا جو آزادی کیلئے جدوجہد کی حمایت کرتا ہے۔ 2005ءمیں نامعلوم افراد نے اسے کراچی کے فلیٹ سے اُٹھا لیا۔ اللہ نذر ایک سال لاپتہ رہا۔ 2006ءمیں نمودار ہوا اور کئی ماہ کوئٹہ میں قید رہا۔ ضمانت پر رہائی کے بعد وہ روپوش ہوگیا اور اب وہ تربت کے پہاڑوں سے مسلح جدوجہد کی نگرانی کررہا ہے۔ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق بی ایل ایف کے پاس 300 سے 400 گوریلے ہیں جبکہ نذر کا دعویٰ ہے کہ اسکے زیر کمان 6000 تربیت یافتہ نوجوان ہیں۔ اللہ نذر کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تعلیم یافتہ نوجوان بھی مسلح جدوجہد پر مائل ہورہے ہیں۔ قبل ازیں غیر تعلیم یافتہ افراد ہی آزادی کی تحریک میں شامل ہوتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ریاستی نظام پڑھے لکھے افراد کو بغاوت پر آمادہ کیوں کررہا ہے؟ طالبان کے خودکش حملے اور بلوچ نوجوانوں کی مسلح کاروائیاں سنجیدہ غور وفکر کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ہمیں ایسے نظام کو بحیرہ¿ عرب میں پھینک دینا چاہیئے جو پاکستان کیلئے محبت کے جذبات پیدا کرنے کی بجائے نفرت کو جنم دے رہا ہے۔
11مئی کو ہونیوالے انتخابات پاکستان کیلئے سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں اگر ہم ذاتی ، گروہی اور ادارہ جاتی مفادات سے اوپر اُٹھنے کا عملی مظاہرہ کرسکیں۔ بلوچ عوام کو پوری آزادی کے ساتھ اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے دیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ ہم بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کریں اور انکی جانب پرخلوص دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ جب انتہا پسندوں کے نمائندے پرچی کے ذریعے منتخب ہوکر قومی اور صوبائی اسمبلی میں پہنچ کر آئینی ریاستی نظام کا حصہ بن جائینگے تو ان سے مذاکرات بھی آسان ہو جائینگے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2008ءکے انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھ کر پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کو داﺅ پر لگادیا تھا۔ جنرل مشرف کے لگائے ہوئے زخموں کو مندمل کرنے کی ضرورت ہے۔ سپہ سالار تو خلوص نیت کے ساتھ کوششیںکرتے نظر آتے ہیں مگر بلوچستان پر ریاست کے سربراہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ ان کا قومی فرض ہے کہ وہ بلوچ عوام کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے کیلئے بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے رابطے کریں۔ پاکستان کے اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بننے کے جنون میں گرفتار ہیں ان کو اپنے سیاسی تجربے اور بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچستان کے انتخابات میں پوری دلچسپی لینی چاہیئے تاکہ بلوچ عوام میں اعتماد پیدا کیا جاسکے اور وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ مولانا فضل الرحمن نمائشی کانفرنسیں تو کرتے ہیں مگر بلوچستان پر ان کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ ناراض بلوچ نوجوانوں کا غصہ قابل فہم ہے۔ آمروں، استحصالی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے بلوچ عوام کو احساس محرومی کا شکار بنایا۔ بلوچ نوجوان ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ پاکستان کی تاریخ میں ان کو 1970ءکے انتخابات کے بعد شفاف انتخابات کا موقع مل رہا ہے کہ وہ برچھی پھینک کر پرچی کا حق استعمال کرکے اپنے حقیقی نمائندے منتخب کریں جو صوبے میں حکومت بنائیں اور بلوچستان کی حقیقی ترقی اور خوشحالی کا آغاز کریں۔ اگریہ موقع کھو دیا تو پھر پانچ سال انتظار کرنا پڑیگا۔