٭بےشک محافل ذکر ،اللہ کے فرشتوں کی محافل ہیں ۔لغو اورباطل امور کی مجالس شیطان کی مجالس ہیں۔ بندے کو ان دونوں سے جواچھی لگے ا سے اختیار کرلے۔ وہ دنیا وآخر ت میں اپنی اختیار کردہ محفل کے ساتھ رہے گا۔
٭ذکر ،ذاکر اورا سکے ہم نشین کی سعادت مندی کا باعث ہے۔ وہ جہاں بھی ہو گا۔اللہ کی رحمتوں کے نزول کا مرکز ہوگا۔ اللہ کے ذکر سے غفلت غافل اوراس کے ہم نشین کی بدبختی کا سبب ہے۔
٭ذکر قیامت کے دن بندے کو ندامت اورحسرت سے بچاتا ہے کیونکہ ہر وہ مجلس جس میں بندہ اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا وہ اس کے لئے بروز قیامت حسر کا باعث ہوگی۔
٭دوران ذکر خلوت میں رونا، یوم محشر ظل الہٰی کے حصول کا سبب ہے۔
٭مشغولیت ذکر ،اللہ تعالیٰ کے جودوکرم میں اضافے کا ذریعہ ہے جیسا کہ گذشتہ بحث میں حدیث گزری ہے۔
٭ذکر افضل ترین عبادت ہونے کے باوجود آسان ترین عبادت ہے کیونکہ حرکت لسان باقی اعضاءکی حرکت سے ہلکی اورسہل ترین ہے۔ ایک دن میں زبان کی حرکت کی مقدار کوئی دوسراعضو حرکت کرے توا س کے لئے انتہائی دشوار ہے۔ بلکہ یہ ناممکن ہے۔
٭ذکر جنت کا پودا ہے ۔ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اسراءکی رات میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملا۔انہوں نے فرمایا :”اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی بڑی عمدہ اور پانی بڑا میٹھا ہے اوریہ خالی میدان ہے اور اس کے پودے سبحان اللہ ، والحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر ہیں:۔
٭ذکر پر مرتب ہونے والا فضل واحسان ہر عمل سے بڑھ کر ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جس نے دن میں سو مرتبہ کہا :لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ،لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ۔اس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جائیں گی اور۱۰۰ گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔ شام تک شیطان سے محفوظ ہوجائے گا اور اس سے افضل کسی کا عمل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ جس نے اس کلمہ کا زیادہ ذکر کیا۔
اور جس نے دن میں سومرتبہ کہا۔ سبحان اللہ وبحمدہ اس کی خطائیں معاف کردی جائیں گی۔ اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کی مانند ہوں۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)