اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہاہے کہ جوڈیشل رویوں کا نظریہ بہت پرانا ہے، عدلیہ کو آئینی طور پر کسی بھی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کو روکنے کا مینڈیٹ حاصل ہے، ریاست امن اور انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، عدلیہ کا کام معاشرے کے تمام طبقات کو برابری کی سطح پر انصاف فراہم کرنا ہے، سپریم کورٹ کو بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ تین روزہ عالمی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین و قانون کی حکمرانی اس وقت ممکن ہے جب تمام ادارے آئین و قانون میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دیں، لوگوں کے جان و مال، جائیداد کا برابری کی سطح پر تحفظ کرنا ہی آئین کی حکمرانی ہے۔ عدلیہ کا کام معاشرے کے تمام طبقات کو برابری کی سطح پر انصاف فراہم کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کو بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے خصوصی اختیارات حاصل ہیں، ہائی کورٹس بھی یہ اختیار استعمال کر سکتی ہیں، اسلام رنگ و نسل اور کسی سماجی بیک گراﺅنڈ کے تحت کسی کو بھی امتیاز نہیں دیتا ہے۔ حضور اکرم کی بیشتر مثالیں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، آرٹیکل 8 کے تحت ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، بہت سے مقدمات میں عدالتوں نے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا ہے، گراس روٹ لیول تک اس کی خلاف ورزی کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں عوامی اہمیت کے معاملات کو آئین و قانون نے خصوصی اہمیت دی ہے اس لئے عدالتیں اکثر اوقات ازخود نوٹس لے کر عوامی اہمیت کے معاملات کی سماعت کرتی ہیں۔ عدلیہ کا کام معاشرے کے تمام طبقات کو انصاف فراہم کرنا ہے رنگ نسل سے بالاتر انصاف کا حصول ہر شہری کا فرض ہے تمام لوگوں کو انصاف تک رسائی نہیں کسی بھی ریاست کا سب سے پہلا اور اہم فرض لوگوں کو باآسانی انصاف فراہم کرنا ہے عدلیہ کی آزادی اور کسی امتیاز سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنا عدلیہ کی مضبوطی کا سبب ہے اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی کو بھی مضبوط کرنا ہے آئین و قانون کی حکمرانی اس وقت ممکن ہے کہ جب ملک کے تمام ادارے آئین و قانون میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دے رہے ہوں اچھی حکمرانی معاشی ترقی اور سماجی ترقی کے لیے رہنمائی کرتی ہے اگر ہم ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ دیکھیں تو ان میں یہی بات پتہ چلتی ہے کہ ان کے اندر آئین و قانون کا احترام اور پابندی اور آئین و قانون کی حکمرانی کا ہوتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں کہ ایک شہری کو تحفظ حاصل ہے اور اسے انصاف مل رہا ہے لوگوں کے جان و مال، جائیداد کا برابری کی سطح پر تحفظ کرنا ہی آئین کی حکمرانی ہے 1947ءسے پاکستان اپنے قیام سے اب تک مسائل کا سامنا کرتا آرہا ہے، حکومت کے لئے بھی کافی مسائل رہے ہیں ملکی تاریخ میں 2009ءترقی کی نوید بن کر ابھرا ۔ سپریم کورٹ کو اس سطح پر لاکھڑا کیا کہ اس نے سٹیٹس کا خاتمہ کردیاریاست کے تین ستون ریاست انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔ سپریم کورٹ آئین و قانون کے محافظ کے طور پر جوڈیشل رویوں کا اختیار رکھتی ہے اور کسی فرد واحد ا ور ادارے کے تحت ہونے والی آئین و قانون کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کرسکتی ہے جوڈیشل رویوں کا نظریہ بہت پرانا ہے عدلیہ کو آئینی طور پر کسی بھی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام روکنے کا مینڈیٹ حاصل ہے اکتیس جولائی 2009ءکو ایک آمر کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو کالعدم قرار دیا گیا جو ملکی آئینی سیاسی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ نے اپنا آئینی اختیار استعمال کیا اسی وجہ سے آج عدلیہ آئین و قانون کی صحیح محافظ کے طور پر سامنے آئی ہے، لوگوں کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہے عدلیہ کا کردار ہر گزرتے دن کے ساتھ اہم ہوتا جارہا ہے اور شہریوں کا اعتماد بھی بڑھ رہا ہے حکومت کی ناقص اور غلط حکمرانی کی وجہ سے انتظامیہ کا بوجھ بھی عدلیہ کے کندھوں پر آچکا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عدلیہ جلد فیصلے دے کر انصاف کا خون کر رہی ہے اگر ہم آبادی کی شرح اور تناسب کو دیکھیں تو مقدمات کے نمٹانے کی رفتار ابھی سست ہے بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت عدلیہ کے معاملات کو مضبوط نہیں کررہی اگر ایسا ہوجائے تو لوگوں کو جلد اور فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ قوموں کی ترقی کا راز آئین اور قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے اور ایک غیر جانبدار عدلیہ ہی قانون کی بہتر حکمرانی کو یقینی بنا سکتی ہے‘ عدلیہ نے کبھی انتظامیہ یا مققننہ کا کردار اپنانے کی کوشش نہیں کی‘ نظر ثانی کا اختیار عدلیہ کو دینے کا بنیادی مقصد تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے‘ جوڈیشل کانفرنس کے انعقاد سے شرکا کو ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔ آئین جمہوری طرز حکمرانی کے ساتھ تمام شہریوں کو بلاامتیاز سماجی انصاف کی فراہمی یقینی بناتا ہے‘ آئین نے عدلیہ کو نظرثانی کا اختیار اس لئے دیا ہے تاکہ تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں کام کریں۔ بدقسمتی سے بار بار فوجی مداخلت کے باعث معیشت غیر مستحکم اور سیاسی ادارے کمزور ہوگئے تاہم 2009ءمیں اس وقت ایک نئے سفر کا آغاز کیا جب 31 جولائی کو 3 نومبر کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ جمہوری نظام کی کامیابی میں عدلیہ کا بڑا کردار ہے‘ نظر ثانی کا اختیار دیگر ریاستی اداروں کے معاملات کو پرکھنے اور حدود میں رکھنے کیلئے دیا گیا ہے اگر کوئی ادارہ یا فرد آئین سے متصادم کوئی اقدام کرتا ہے تو سپریم کورٹ اسے مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔