غلام نبی بھٹ
سڑکوں کے پیچ ورک کے نام پر کروڑوں کی کرپشن
خادم اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر یا شاید علاقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی درخواستوں پر ان کے من پسند علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر مرمت اور پیچ ورک کا کام نہایت زور و شور سے جاری ہے جبکہ ان کی نظر التفات سے محروم سڑکیں آج بھی اپنی تباہ حال پر نوحہ کناں ہیں۔ اور سادہ لوح عوام خوش ہیں کہ چلو کسی نہ کسی بہانے ادھڑی ہوتی خستہ حال سڑکوں کی بھی سنی گئی۔ یوں صرف لاہور شہر میں ہی کروڑوں اربوں سے کام شروع ہو چکا ہے جابجا کام ہو رہا ہے۔ اس تمام تگ و دو کا اصل چہرہ اس وقت عوام کے سامنے آنا شروع ہوگیا جب یہ سرکاری محکمہ ٹھیکیدار اور مزدور کام ختم کر کے چلے جاتے ہیں اور صرف ایک دو دن کے بعد ہی ان تباہ حال سڑکوں کی جعلی مرہم پٹی کا پول کھلنا شروع ہوتا ہے اور جگہ جگہ کاغذی لیپا پوتی اترنا شروع ہو جاتی ہے اور پہلے سے پڑے ہوئے گڑھے مزید گہرے ہو کر سامنے آنے سے ان سڑکوںپر چلنا پہلے کی طرح دشواری معلوم ہوتا ہے۔
جو ٹھیکیدار لاکھوں روپے رشوت دے کر ٹھیکہ حاصل کرتا ہے جب اس سے شکایت کی جائے تو اس کا ٹکا سا جواب ہوتا ہے کہ اتنی رشوت دے کر یہ ٹھیکہ لیا ہے۔ اتنی مزدوری دینی ہے اتنا تارکول اور بجری کا خرچہ ہے یہ سب نکال کر بچتا ہی کیا ہے کہ ہم میٹریل پورا لگائیں اور صبح تناسب سے بجری اور تارکول ڈالیں۔
پورے شہر میں معمولی سی تارکول کی لپائی اور ہلکی سی بجری کی تہہ بچھا کر اس پر بلڈوز چلانے کو پیج ورک اور کارپٹنٹگ کا نام دیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ عوامی نمائندوں یعنی وزیروں‘ مشیروں اور سرکاری اداروں کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں پوچھنے والا نہیں کیونکہ یہ سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہی نہیں ڈبکی لگا چکے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نا ’’…… کوتوال اب ڈر کاہے گا‘‘ جب اوپر سے نیچے تک سب ہال مفت میں حصہ لیتے ہوں تو کون روکے کا کون چیک کرے گا اور نہیں ہو وزیراعلیٰ ہی توجہ دیں۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور سامان کے اجزاء لیبارٹری ٹیسٹ کرا کے دیکھ لیںتو سارا کچھا جٹھہ سامنے آ جائے گا کہ کتنی مقدار میں بجری اور تارکول وہ بھی کس کوالٹی کا استعمال ہو رہا ہے اور ہر ٹھیکہ کتنے میں نیلام ہوا اور کس کس ایم پی اے‘ ایم این اے کے منظور افراد اور چمچوں نے اس سرکاری کام سے فیض پایا۔ وزیروں‘ مشیروں اور اعلیٰ سرکاری حکام نے کتنے فیصد کمیشن لیا ان سب کی تحقیقات ہی کافی نہیں یہ تو ہر حکومت کرتی رہتی ہے۔ اصل بات اس لوٹ مار میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا جس کا اعلان ہر حکومت کرتی ہے۔ مگر اپنے ان کمائو پوتوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی کیونکہ اس طرح ان کے اپنے دستر خوان کی زینت کم ہوتی ہے اور کوئی عقل مند ہونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ذبح نہیں کرتا۔
ہمارے ہاں تو عام فارمولا ہے۔ ٹھیکہ لینے کا کہ 30 فیصد کمیشن دی جائے۔ باقی جو بچے اس میں سے 50 فیصد اپنا حصہ نکال کر باقی 20 فیصد رقم سے عوام پر اپنی خدمات اور ترقیاتی کاموں کا احسان ڈالا جائے۔ کیونکہ ہمارے ہاں ’’چینگ ‘‘ کا کوئی اصول نہیں ہے۔ بس روایتی تقریروں سے اصلاح کاکام لیا جاتا ہے۔ عملی طور پر کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی۔ سب اپنا اپنا حصہ وصول کر کے اطمینان کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہر سال اربوں روپے اس طرح ضائع ہوتے ہیں لٹیروں کی تجوریوں میں پہنچ جاتے ہیں مگر کوئی بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اگر فرصت ملے تو وزیراعلیٰ صاحب خود پہلے کی طرح خاموش اور صبح سویرے یا رات کے اندھیرے میں نکل کر ان سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا جائزہ لیں تو ابھی چند دن پہلے بننے والی ان سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ‘ کناروں کی بدحالی اور پڑنے والے گڑھوں سے نا صرف آگہی ہو گی بلکہ اس کام میں استعمال ہونے والا میٹریل بھی اپنی ساری کہانی سنا دے گا۔ پھر اس کے بعد وزیراعلیٰ کیا ایکشن لیتے ہیں اس کا علم نہیں البتہ جس طرح پہلے بھی ایکشن لینے کے باوجود اس کرپٹ مافیا کا کوئی بال بیکا نہ کر سکا۔ اب بھی وزیراعلیٰ کے احکامات کا یہی حشر ہو گا کیونکہ یہ کرپٹ مافیا بہت مضبوط ہے اور اس کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہیں۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں اور حکمرانوںکے ساتھ اس کے تعلقات ہیں۔ جو ان کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کی کلائی مروڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
سڑکوں کی پیچ ورکنگ کے نام پر کروڑوں کی کرپشن
Apr 20, 2014