ماحولیاتی حدت بحر و بر کیلئے خطرہ

Apr 20, 2014

 کام کی نسبت آج ماحولیاتی صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔شدید گرمیوں میں گلیشیئر کے پگھلنے سے جہا ں سمندری پانی کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف موسم گرما کے دوران تپش نے بھی ماحول کو متاثر کیا ہے اسی تناظر میں حال ہی میں جاپان میں منعقدہ اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں ایک رپورٹ پیش کی گئی اس حوالے سے اقوام متحدہ میں موسمیات کے شعبے کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تپش کے دنیا پر پڑنے والے اثرات کے وافر شواہد موجود ہیں اور اس کی شدت کے اثرات فطری نظام پر پڑ رہے ہیں جس سے انسانوں کو خطرہ لاحق ہے۔آئی پی سی سی کی
اس رپورٹ کے خلاصے میں کہا گیا  کہ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے انسانی صحت، رہائش، کھانے اور حفاظتی انتظامات سب کو خطرہ درپیش ہے۔موسم کی تبدیلی پر یہ بین الاقوامی پینل( آئی پی سی سی) کی اس سال اس ضمن میں دوسری رپورٹ ہے جس میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے اسباب اثرات اور حل پر خاطر خواہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ایک نشریاتی ادارے کے مطابق
رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ سنہ 2007 میں عالمی تپش کے بارے میں جو سائنسی شواہد اور اس کے اثرات پیش کیے گئے آج وہ دگنے ہوچکے ہیں جبکہ رواں دہائی میں گلیشیئروں کے پگھلنے اور برفانی علاقوں کے درجۂ حرارت میں اضافے سمیت ماحولیاتی تپش کے اثرات تمام براعظموں اور تمام سمندروں میں دیکھے گئے جس کی وجہ سے  انسان اور فطرت دونوں اس کی زد میں ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات میں شدت، نفوذ پذیری اور ناقابل تلافی ہونے کا خدشہ ہے۔
 آئی پی سی سی کے چیئر مین  نے جاپان کے شہر  یوکوہوما میں صحافیوں کو بریفنگ میں  بتایا کہ اس کرہ پر کوئی بھی موسم کی تبدیلی کے اثرات سے نہیں بچ پائے گا۔
 اس رپورٹ میں ایک باب کے  لکھا گیا : ’’ اس سے قبل ہم یہ خیال کر رہے تھے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن اب ہمارے پاس بہت زیادہ شواہد ہیں کہ یہ ہورہا ہے اور یہ حقیقی ہے۔عالمی موسمیات کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل مائیکل جاروڈ  کے مطابق: پہلے انسانوں نے زمین کے موسم کو انجانے میں نقصان پہنچایا تھا لیکن اب لا علمی کسی طورپر بھی اچھا بہانہ  نہیں  رہا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ رپورٹ12 ہزار اہم سائنسی مطالعات کے جائزے کے بعد تیار کی گئی ہے اور یہ سائنس کے شعبے میں سب سے ٹھوس رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ میں آنے والے  20 سے 30 برسوں کے درمیان قدرتی نظام پر پڑنے والے اہم قلیل مدتی اثرات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔
اس میں پانچ چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں خطرہ لا حق ہے اور ان میں قطبین کی سمندری برف اور مونگے کی چٹانیں ہیں۔درجہ حرارت میں دو درجے اضافے سے ان کو زبردست خطرہ لاحق ہے۔ اس میں سمندری اور تازہ پانی پر پڑنے والے اثرات کے بھی تفصیل ہے۔گرمی بڑھنے سے سمندر مزید تیزابی ہوجائے گا جس سے وہاں کے جانداروں کو نقصان پہنچے گا۔ درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں زمین پر انسان اور جانور اونچائی کی جانب اور قطبی علاقوں کی جانب بڑھنا شروع ہوجائیں گے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں فوڈ سکیورٹی کو بھی خطرہ لاحق ہے اور 2050 تک مکئی، چاول اور گندم کی پیداوار متاثر ہوگی۔اس وقت تک دنیا کی آبادی تقریباً نو ارب ہوچکی ہوگی اور ان کیلئے کھانے کی فراہمی مشکل ہوجائے گی۔اس کے علاوہ مچھلیوں کی بہت سی اقسام گرم پانی کے سبب اپنی جگہ سے چلی جائیں گی جو کہ بہت سے لوگوں کیلئے خوراک کا اہم ذریعہ ہیں اور بعض علاقوں میں مچھلیوں کی تعداد میں 50فیصد کی کمی آجائے گی۔ یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں پروفیسر نیل ایڈجر کے مطابق : ’’ یہ بہت سنگین اندازہ ہے مستقبل میں اس تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔انسانوں، فصلوں، پانی کی سطح، روزمرہ کی زندگی اور خوراک ہر چیز پر اس کا اثر ہوگا۔ لوگ گرمی اور سیلاب سے متاثر ہوں گے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں اور تعمیراتی کام میں شامل مزدوروں اور گھر سے باہر کام کرنے والے طبقے کو نئے ممکنہ خطرات ہوں گے۔موسم کی تبدیلی کے سبب نقل مکانی، جنگ اور قومی سلامتی جیسے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔اس سے غریب ممالک کے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے لیکن امیر ملک بھی عالمی حدت کے اثرات سے متاثر ہوں گے۔ ایک ماہر کے مطابق امیر ممالک کو بھی ماحولیاتی تپش کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ابھی حال ہی میں  برطانیہ میں سیلاب ،امریکہ میں طوفان اور کیلیفورنیا میں خشک سالی دیکھ چکے ہیں۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس کیلئے امیروں کو زبردست قیمت ادا کرنی پڑے گی اور اس کی کوئی حد نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ سے منسلک ڈاکٹر کرس فیلڈ کہتے ہیں: اس رپورٹ کی اہم کامیابی یہ ہے کہ اس میں ماحولیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایسی نئی تجاویز اور حل پیش کیے گئے ہیں مثلاً قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے انتظامات ان کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں تشویش بہت زیادہ ہے لیکن ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے کئی طریقے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سے عہدہ برا ہونے کے لئے ایسے اقدامات کریں جس سے کرہ ارض واقعی جنت ارضی بن سکے اور یہ ااسی وقت ممکن ہے جب یہاں بسنے والے عملی اقدامات کریں گے۔

مزیدخبریں