رواں سال میں نئے صوبوں کے قیام کی پہلی باقاعدہ آواز صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی سے سنی گئی، حکمران جماعت کے سینئر رکن سردار ادریس نے صوبائی اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کی زبردست وکالت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں خیبر پختونخوا کے نام پر بھی اعتراض ہے جبکہ انتظامی بنیاد پر ہزارہ صوبے کے قیام کا مطالبہ جائز ہے جس پر نتیجہ خیز پیش رفت کرینگے۔ ادھر صوبہ ہزارہ کے خواب کو عملی تعبیر دینے کے لئے گزشتہ دنوں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں ہزارہ سے متعلق اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کے ساتھ سیاسی و سماجی عمائدین کی بڑی تعداد شریک رہی جن میں سینٹر طلحہ محمود،پیر صابر شاہ ڈاکٹر اظہر جدون اور سرزمین خان شامل تھے۔ وفاقی وزیر سردار محمد یوسف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہزارہ صوبے کا مطالبہ بہت پہلے کا ہے جسے نظرانداز کر کے اپنے سیاسی و جماعتی مفاد کو اولیت دی گئی ، صوبہ ہزارہ کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں شہید ہونے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اورپھر ہزارہ وال نے بارہ اپریل کو شہدا ء کی برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی… یہ درست ہے کہ 18 ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد نئے صوبوں کے قیام کی آوازوں میں شدت آتی گئی۔ صوبہ بہاولپور کے لئے محمد علی درانی‘ ہزارہ کے لئے بابا حیدر زمان‘ گوہر ایوب اور سردار یوسف جبکہ صوبہ پوٹھوار کے لئے ملک امریز حیدر اپنی جدوجہد پر قوم کی توجہ مبذول کراتے رہے۔ دسویں عام انتخابات سے قبل نئے صوبوں کے قیام دیگر مطالبات میں شامل تھا۔ خیال تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتیں اور سیاسی و انتخابی اتحاد انتظامی طور پر نئے صوبوں کے نام کو منشور سے منسلک کریں گے۔ایک تاثر یہ بھی تھا کہ سیاسی جماعتوں کو نئے صوبوں کے حوالے سے بھی ووٹ ملیں گے، تاہم حیرت انگیز طور پر انتخابی مہم میں نئے صوبوں کا تذکرہ خال خال رہا۔ گو پیپلز پارٹی نے پہل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پنجاب میں سے پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کو ’’جنم‘‘ دیا تھا۔ جس کی صدارت کے لئے مخدوم شہاب الدین کو چنا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ مجوزہجنوبی پنجاب صوبے کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی۔ تاہم یہ بیل آگے نہ چڑھ سکی! گزشتہ دنوں ہزارہ اور راولپنڈی میں نئے صوبوں کے قیام کے لئے سردار محمد یوسف اور ملک امریز حیدر بڑے متحرک نظر آئے۔ دونوں صاحبان صوبوں کے عشق میں گرفتار ہیں۔ ملک امریز حیدر ان دنوں خطہ پوٹھوار کے ہنگامی دورے پر ہیں وہ ملاقاتوں‘ رابطوں‘ مشوروں اور باہمی گفتگو سے قومی سیاسی منظر نامے میں ہویدا ہونے کی جہد مسلسل کر رہے ہیں۔ چند روز قبل ایک نشست میں انہوں نے صوبہ پوٹھوار کے حوالے سے چند گزارشات کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کب تک خواب کی سیاست سے عوام کا استحصال کرتے رہیں گے۔ ہمیں حقائق کی دنیا میں آ کر عوام کی خدمت کرنا چاہئے۔ انہوںنے بھارت‘ چین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مثالیں دیں جہاں صوبوں کی بہتات سے مسائل میں بتدریج کمی ہوتی گئی،آخر ہم اس طرح کی تعمیری سرگرمی سے وطن اور اہل وطن کی خدمت کیوں نہیں کر سکتے!!! ان کا کہنا تھا کہ خطہ پوٹھوہار کا وجود ہر دور میں موجود رہا ، اللہ رب العزت کا کرم خاص دیکھیں چاروں طرف سے حدود اربعہ قائم ہے نہ تقسیم کا جھگڑا اور نہ ہی محکمہ مال کا جھنجھٹ بس ایک نوٹیفکیشن پر صوبے کا درجہ مل سکتا ہے۔ خطہ پوٹھوہار قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے 800سال تک اس خطہ پاک میں کوئلے‘ گیس‘ نمک‘ پتھر اور کئی قدرتی معدنیات ہیں۔ 1947ء میں ایک ساتھ آزاد ہونے والے بھارت نے 68سال میں 56سے زائد ڈیم بنا لئے جو صدیوں تک پانی کا سٹاک رکھ سکتے ہیں اور ایک ہم ہیں جو ایشیاء کے سب سے بڑے ڈیم کالا باغ کی تعمیر پر جھگڑ رہے ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدان اور حکمران پاکستان کو اپنا گھر نہیں سمجھتے اس لئے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیتے بھاشا ڈیم منگلا ڈیم اور دیگر ڈیمز کون سی طاقتیں ہیں جو نہیں بننے دیتی اس طرح جو ڈیمز آج تک بن چکے ہیں وہ تمام کے تمام خطہ پوٹھوہار میں واقع ہیں منگلا ڈیم‘ خانپور ڈیم ‘ راول ڈیم ‘ سمبلی ڈیم‘ غازی بھروتھہ پروجیکٹ تمام کے تمام پوٹھوہار میں موجود ہیں اس کے علاوہ شاہ پور ڈیم فتح جنگ اٹک بھی موجود ہے۔ ایک تربیلا ڈیم خیبرپختونخواہ میں موجود ہے اس کی بھی نکاسی خطہ پوٹھوہار میں موجود ایشیاء کا بڑا ڈیم کالا باغ بھی چاروں اطراف سے خطہ پوٹھوہار کی حدود میں واقع ہے۔خطہ پوٹھوہار پر اللہ نے وہ کرم خاص کیا ہوا ہے کہ اس دھرتی کو شہیدوں غازیوں اور ولیوں کی دھرتی کا لقب نصیب ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس دھرتی پر رب کی رحمتیں برستی ہیں اور اللہ کے فضل نے یہاں کے باسی نسل در نسل پورے پورے خاندان بسلسلہ روزگار بیرون ممالک میں رہائش پذیر ہیں گائوں کے گائوں لاکھوں کی تعداد میں بیرون ممالک سے زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جس سے ہماری گاڑی چلتی ہے۔خطہ پوٹھوہار کو رب تعالیٰ نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ اس خطہ پاک میں شروع ہی سے اولیاء کرام کی کرامت کا ظہور ہوتا رہا ایک سے بڑھ کر ایک ولی اللہ اس دھرتی پر محبوس ہوا اور سب سے بڑا اعزاز دنیا میں واحد ھرتی پوٹھوہار ہے جس کے سپوتوں نے اپنے چھاتی پر جو نشان حیدر سجائے اور سینکڑوں اعزازات و تغمات بھی حاصل کئے پاکستان کو دفاع وطن میں آفیسر ان اور نوجوانوں کی کھیپ 45 فیصد سے بھی زائد خطہ پوٹھوہار دے رہا ہے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیں خطہ پوٹھوہار کا 80فیصد رقبہ بارانی ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور اس میں کسی قسم کی سبزیاں یا فضل لگائیں وہ بہت زبردست ذائقے اور لذت والا ہوگا۔ گندم‘ چنے‘ مونگ پھلی ہر قسم کی دالیں مکئی ‘ سورج مکھی‘ گنا حتیٰ کہ گہاہ تک کی فصل اگائی جاتی ہے اور ان سے ملکی ضروریات اور خطہ کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔خطہ پوٹھوہار کو رب تعالیٰ نے وہ شرف بخشا ہوا ہے کہ ایک وقت میں پوٹھوہار میں کئی موسم ہوتے ہیں ۔ جیسے مری میں برف پوش پہاڑ ہوتے ہیں ‘ اسی نسبت سے راولپنڈی اسلام آباد میں سرد ہوائیں اور موسم ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اٹک میں جھنگ چکوال سے میانوالی خوشاب میں سردی کا وہ عالم نہیں ہوتا۔ جہلم دریائوں کی وجہ سے نمی اور دھند کا شکار ہوتا ہے۔ افغانستان مین جب برف پڑتی ہے تو مرغابی‘ تیتر جیسے کئی پرندے خطہ پوٹھوہار کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں سکون سے زندگی کے دن گزارنے کا موقع میسر آتا ہے۔پوٹھوہار قدرت کا وہ شاہکار ہے جو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہے اس کی حدو بندی اللہ پاک نے چاروں اطراف مقرر کر دی ہے دریائے جہلم سے سرائیکی پٹی تک دریائے سندھ سے سرائیکی پٹی تک 68سال سے کشمیر کے ساتھ حدود مقرر ہے۔راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ اٹک‘ چکوال‘ میانوالی ‘خوشاب‘ جہلم اور اس طرح سات اضلاع خطہ پوٹھوہار کی شان ہیں‘ اسلام آباد وفاقی دارالحکومت بھی خطہ پوٹھوہار میں واقع ہے اسی طرح حدود اربعہ کے لحاظ سے پوٹھوہار کی اپنی پہچان ہے۔ خطہ پوٹھوہار قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہونے کے باوجود یہاں کی عوام کو کوئی سہولت میسر نہیں اور نہ ہی روزگار کے مواقع موجود ہیں۔خطہ پوٹھوہار کے 60فیصد نوجوان بے روزگار ہیں خطہ پوٹھوہار کی عوام کو آج تک ان سازشی عناصر نے حقوق نہ دینے دئیے جو پاکستان کی بقاء نہیں چاہیتے‘ واحد خطہ پوٹھوہار کی عوام ہے جنہوں نے ملکی دفاع کے لئے اپنی جانیں قربان کی اور سالمیت پر آنچ نہیں آنے دی۔ تمام ڈیمز کے لئے رقبہ خطہ پوٹھوہار نے دیا کالا باغ بھی اہل خطہ پوٹھوہار کی زمینوں میں بن رہا ہے پھر ایک وجہ ہے دوسرے صوبے اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اداروں بشمول سی ڈی اے 60فیصد بے روزگاروں کے لئے حکومت وقت 40فیصد کوٹہ مختص کرائیں۔ خطہ پوٹھوہار انڈسٹریل زون ‘ پوٹھوہار یونیورسٹی پمز کے مقابلے کا کوئی ہسپتال کیا اہل پوٹھوہار کے نصیب میں ہوگا۔