سیاسی قصیدہ گوئی

”ہتھیانا یا ہتھیا لینا“ کا مفہوم ہے۔ ہاتھ میں لینا، قبضہ کرنا اور مال کو دبا کر رکھنا۔ شاعر نے نہ جانے کِسے مخاطب کر کے کہا تھا کہ 

دِ ل کا سودا تیری زُلفوں سے بنا رکھا ہے
کیا خبر تھی کہ نِگہ مُفت میں ہتھیا لے گی
اِک سیٹ ہتھیانے گئے!
کراچی کے حلقہ این اے246 کے ضمنی انتخاب میں مُلک کی دو بڑی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ”بائیکاٹ“ کر رکھا ہے لیکن اُن کا اور ”بائیکاٹ“ کرنے والی دوسری پارٹیوں کی طرف سے انتخابی میدان میں اپنے اپنے امیدوار اُتارنے والی ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کی قیادتوں پر جُگت بازی جاری ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کہتے ہیں کہ ”عمران خان صِرف ایک سیٹ ہتھیانے کے لئے کراچی گئے ہیں۔ ”شاعرِ سیاست“ جناب پرویز رشید کے جذبات کی ترجمانی کرتے اور جنابِ عمران خان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں
اپنا پی ٹی آئی کا بھی خُون گرمانے گئے
لے کر زرداری میاں صاحب کے افسانے گئے
بھولے بھالے لوگوں کو وعدوں پہ ٹرخانے گئے
تُم کراچی کی فقط اِک سِیٹ ہتھیانے گئے
سیاسی قصِیدہ گوئی:
ایک ماتحت نے اپنے افسر کی سالگرہ کی تقریب میں شُرکاءکو بتایا کہ ”حضور فیض گنجور قِبلہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ موصوف کسی قِسم کی خوشامد پسند نہیں کرتے۔“ وفاقی وزیر ِ منصوبہ بندی و اصلاحات چودھری احسن اقبال نے17 اپریل کو بیورو کریٹس اور سینئر صحافیوں کو ہدایت کی کہ ”سیاسی قصِیدہ گوئی سے آگے بڑھ کر مُعیشت پر توجہ دینا ہو گی“ اور اُس کے ساتھ ہی جنابِ وزیرِاعظم کی قصِیدہ گوئی کا عملی مظاہرہ کرتے ہُوئے احسن اقبال صاحب نے کہا کہ ”جنابِ وزیرِاعظم کی ہدایت پر پاکستان میں چینی باشندوں کی سکیورٹی کے لئے "Special Security Force" بنائی جائے گی“ اور اُس کے ساتھ ہی اُنہوں نے عوامی جمہوریہ چِین کی قیادت کا قصِیدہ پڑھتے ہُوئے کہا کہ چِین کا کام کرنے کا اپنا انداز ہے۔ وہاں نعرے نہیں لگائے جاتے اور کام زیادہ کِیا جاتا ہے۔
جناب احسن اقبال بیوروکریٹس اور سینئر صحافیوں کو یہ سمجھا رہے تھے کہ ”وہ چِینیوں کا سا انداز اختیار کریں، نعرے کم لگائےں اور کام زیادہ کریں!“ حالانکہ بیوروکریٹس اور سینئر صحافی تو نعرے لگاتے ہی نہیںاور کام زیادہ کرتے ہیں۔ ”قصِیدہ“ ایک صِنف شاعری ہے جو پرانے دَور کے شاعروں نے بادشاہوں کی قُربت حاصل کرنے کے لئے ایجاد کی تھی۔ اِس قِسم کے شاعروں نے ہی درباری عُلماءو فُضلاءکے تعاون سے بادشاہوں کے لئے ”ظِلِّ الہی“ اور ”ظِلّ ِ سبحانی“ وغیرہ کے القابات ایجاد کئے تھے۔ وہ بادشاہوںکے بزرگوں اور اُن کی آل اولاد کی بھی ایسی خوبیاں بیان کرتے تھے جو اُن میں سرے سے تھی ہی نہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بیگم نُصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے بعد جناب ِ زرداری اور اُن کی اولاد کو اُن کے ناموں کے ساتھ ”بھٹو“ کا لاحقہ لگا کر میدانِ سیاست میں اُتارا گیا۔ جناب احسن اقبال کے دَورِ جدید کے قائدِین حمزہ شہباز اور مریم نواز بھی میاں نواز شریف کے قصیدہ گو سیاست دانوں کی دین ہیں۔ مَیں نے تو ”نوائے وقت“ میں 16جون 2013ءکے ”سیاست نامہ“ میں وزیرِاعظم نواز شریف کو”وزارتِ فروغِ خوشامدیات "Ministry Of Flatterology Development" کے قیام کی تجویز پیش کر دی تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔ اب میں کیا کروں؟
جاوید صدیق کی گاڑی ”اگاڑی نہ پچھاڑی؟“
18 اپریل کو انفارمیشن گروپ کے بہت ہی زیادہ پڑھاکو سابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر پروفیسر سلیم بیگ مُجھ سے مِلنے آئے اور دریافت کِیا کہ آپ نے جاوید صدیق صاحب سے اظہارِ افسوس نہیںکِیا؟ مَیں گھبرا گیا اور پوچھا کہ کیا ہُوا جاوید صدیق کو؟ بیگ صاحب نے بتایا کہ 12 اپریل کو اُن کی گاڑی چوری ہو گئی تھی۔ برادرِ عزیز جاوید صدیق ”نوائے وقت“ اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں اور ماضی بعید میں ہم نے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کے ساتھ کئی غیر مُلکی دورے بھی کئے ہیں۔ 19اپریل کو مَیں نے ”نوائے وقت“ میں ”اللہ ہی حافظ ہے“ کے عنوان سے جاوید صدیق کا کالم پڑھا۔ اُنہوں نے لِکھا کہ ”مَیں مسجد میں نماز پڑھنے گیا تھا اور جب نماز پڑھ کر باہر آیا تو میری گاڑی غائب تھی۔“ پرانے دَور میں کسی شاعر نے کہا تھا کہ
اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہُشیار
اِک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خِضرؑ کی صُورت
مجھے نہیں معلوم کہ برادرِ عزیز جاوید صدیق کی گاڑی چُرانے والا کوئی خضر ؑ صُورت بزرگ تھا یا کوئی منحوس صُورت؟“ قیامِ پاکستان سے قبل لکھنو کے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے دَور میں ایک داڑھی والا سائیکل چور پکڑا گیا تو کسی صاحب نے مولانا سے پوچھا کہ مولانا صاحب ! یہ مولویوں نے چوری کب سے شروع کر دی؟ مولانا نے جواب دِیا کہ دراصل چوروں نے داڑھیاں رکھنا شروع کر دی ہیں۔ جاوید صدیق لِکھتے ہیں کہ مَیں نے بنک کو 8 لاکھ روپے دے کر باقی 6 لاکھ قِسطوں میں ادا کرنے کے لئے لون فنانسنگ سکیم کے تحت گاڑی خریدی تھی۔ اُن کی اوپر تک رسائی ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار خان نے اُن سے فون پر اظہارِ افسوس کِیا، گورنر خیبر پی کے سردار مہتاب خان اور وہاں کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصِر خان درانی نے بھی۔ کیا یہ کافی نہیں ہے؟ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ تینوں مصروف ترین لوگ اپنا اپنا راج پاٹ چھوڑ کر کسی صحافی کی مسروقہ گاڑی اور گاڑی کے چور کی تلاش میںاپنی بُلٹ پروف گاڑیوں پر نکل کھڑے ہوں۔ جاوید صدیق بھائی شاید آپ کو عِلم نہیں کہ بُلٹ پروف گاڑیاں صِرف کارِ سرکار کے لئے ہوتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو دی گئی گاڑی کا کوئی اور مقصد ہے۔ آپ کو ٹریکنگ نظام کنٹرول کرنے والے بتا رہے تھے کہ اب آپ کی گاڑی ٹیکسلا میں ہے اور اب وہ ہری پور کے قریب کوٹ نجیب اللہ خان پہنچ گئی ہے! اور اُس کے بعد وہ کہاں گئی؟ یہ بتانے کا انہوں نے کوئی ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا؟ شاعرِ سیاست نے کہا تھا کہ
ناکارہ ہو نہ جائے لے جائیں نہ کباڑی
لنگڑا کے چل رہی ہے جمہوریت کی گاڑی
لیکن جاوید صدیق کی گاڑی تو لنگڑا کر نہیں چل رہی تھی۔ نئی نویلی دُلہن کی طرح تندرُست و توانا تھی۔1992ءمیں میاں نواز شریف وزیرِاعظم تھے جب مسلم لیگ (جونیجو گروپ) کے مرکزی سیکرٹری جنرل جناب اقبال احمد خان (مرحوم) کی گاڑی چوری ہو گئی تھی۔ مَیں نے ”نوائے وقت“ میں کالم لِکھا اور کہا تھا کہ اقبال احمد خان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ وہ گاڑی میں سوار نہیں تھے وگرنہ چور اُنہیں بھی ساتھ لے جاتے۔ کچھ دنوں بعد پولیس نے گاڑی کو برآمد کر لِیا تھا۔ مَیں تو بس اِتنا ہی کر سکتا ہُوں۔ میرے کالم لِکھنے سے اگر میرے دوست اور ”ہم اخبار“ صحافی کی گاڑی برآمد ہو جائے تو میں خود کو خوش نصیب سمجھوں گا لیکن مرحوم اقبال احمد خان کی گاڑی جب برآمد ہوئی تھی تو اُس کی حالت اِس قدر خستہ تھی کہ وہ خُود (گاڑی) خان صاحب کو مُنہ دکھانے کے قابل نہیں تھی۔ خُدا نہ کرے کہ جب گاڑی مِل جائے تو لوگ یہ کہیں کہ ”جاوید صدیق کی گاڑی اگاڑی نہ پچھاڑی!“

ای پیپر دی نیشن