اسلام آباد (خبرنگار+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے بلوچستان میں ’را‘ کے جاسوس کی گرفتاری کو زیر بحث لانے کی تحریک بحث کے لئے منظور کر لی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری سے پاکستان کو بھارت کی پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کی حمایت کی واضح شہادت حاصل ہوئی ہے اور ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت ریاستی سطح پر پاکستان میں دہشت گردی کی نہ صرف سرپرستی بلکہ معاونت کر رہا ہے اور دہشت گردوں کو اسلحہ اور ایمونیشن فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ کیس تمام فورمز پر اٹھایا ہے، بھارتی جاسوس کی گرفتاری سے بھارت کا ملوث ہونا ثابت ہو گیا ہے۔ بھارتی جاسوس کے نیٹ ورک کے حوالے سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے جو آنے والے وقتوں میں بہت اہم ہوگی۔ گرفتار جاسوس سے بہت حساس نوعیت کی معلومات مل رہی ہیں۔ اس گرفتار شخص کے علاوہ اور بھی ثبوت اور شواہد حاصل ہو رہے ہیں جن پر کام کیا جا رہا ہے۔ ابھی مزید تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں۔ معاملہ کی حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے فی الحال اسے زیر غور نہ لایا جائے، یہ بہت بڑا بریک تھرو ہے جس کو ہم ڈویلپ کر رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے آج بدھ کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔ مشرف کے بیرون ملک جانے اور آرٹیکل 6کے احکامات سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کی تحریک التوا پر بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کامقدمہ چل رہا ہے مگر وہ باہر چلے گے ہیں، ہم حکومت پر الزام نہیں لگانا چاہتے مگر اس کے مضمرات پر ضرور بات کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں بیٹھے ہوئے وزاء نے کہا تھا کہ ہم سیاست چھوڑ دیں گے، مشرف کا باہر جانا حکومت کے خلاف نہیں یہ پارلیمان اور پاکستانی عوام کے خلاف ہے۔ عمران خان کے دھرنے سے پارلیمنٹ اور سیاسی قوتیں کمزور ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس معاملے کو زیر بحث لائے۔ محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ مشرف جو کہ ڈکیٹر اور قانون شکن ہے کس قانون کے تحت ملک سے باہر گیا۔ اس ملک میں طاقت کا قانون ہے، جس کے پاس طاقت ہے اس کے لئے جیل ہے نہ جرمانہ اور نہ کوئی اور سزا۔ بے تاج بادشاہ اپنے محل میں بیٹھے ہوتے ہیں، عدالتوں میں حاضر نہیں ہوتے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ یہاں دہشت گردی میں جن لوگوں نے جانیں دیں اس کے ذمہ دار مشرف ہیں۔ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ یہ مسئلہ پرویز مشرف کا نہیں یہ اصول کا ہے قانون کی پاسداری کا ہے۔ عدالت کو کس نے یہ اختیار دیا تھا کہ آئین میں ترمیم کی ہدایت دے، جب سپریم کورٹ نے بھی ای سی یل کا مقدمہ خارج کردیا تو حکومت کیسے روک سکتی ہے۔ ہمیں اپنے اپنے گریبان میں دیکھنا ہو گا۔ جاوید عباسی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جمہوری نظام میں رہ کر عوام کو ڈلیور کیا جائے۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ نے ساہیوال میں 1200 میگاواٹ کوئلہ کے بجلی گھر کی تعمیر کے منفی اثرات کو زیربحث لانے کی تحریک التواء بحث کیلئے مسترد کر دی۔