سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس کیس نمبر 26 آف 2007ء میں بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء کے تحت3 جون2011ء کو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سید جمشید علی کی سربراہی میں کمیشن مقرر کیا تھا۔کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ1971ء سے 2009ء تک کے عرصے میں بینکوں اور ڈیویلپمنٹ فنانشل انسٹیٹیوشنز کی طرف سے با اثر لوگوں کے مفاد کیلئے معاف کئے گئے قرضہ جات کی تفصیلی رپورٹ مرتب کر کے اپنی سفارشات کے ہمراہ عدالت عظمیٰ میں پیش کرے۔ سہ رکنی کمیشن نے کٹھن انکوائری کے بعد تین حصوں پر مشتمل مفصل رپورٹ فروری2013ء میں پیش کر دی جو سپریم کورٹ نے ایک حکم کے ذریعے پبلک کر دی۔سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق اگرچہ اس عرصے کے دوران256 ارب روپے کے قرضے معاف کئے گئے لیکن کمیشن کی مرتب کردہ انکوائری رپورٹ کے مطابق دستاویزی ثبوت اور دائرہ کار کی روشنی میں اس عرصے کے دوران ستاسی ارب روپے کے قرضہ جات معاف کئے گئے۔رپورٹ کے مطابق دو اعشایہ اڑتیس ارب کے قرضے1971ء سے 1991ء تک جبکہ چوراسی اعشاریہ باسٹھ ارب روپے کے قرضے1992ء سے2009ء تک کے عرصے میں معاف کئے گئے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں قرضے معاف کروانے والوں کے ساتھ فنانشل انسٹیٹیوشنز اور انکے منیجروں کو بھی ناکافی سیکورٹی پر بڑے بڑے قرضے جاری کرنے اور پھر معاف کرنے میں معاونت کرنے پر ذمہ دار ٹھہرایا اور ان کیخلاف کاروائی کی تجویز دیتے ہوئے معاف کئے گئے قرضوں کی ریکوری کی سفارش کی۔ کمیشن نے یہ بھی سفارش کی کہ معاف کئے گئے قرضہ جات کی ریکوری کیلئے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کروائی جائے۔
قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کے گورنر نے سرکلر نمبر29 آف 2002ء جاری کیا جس کی رو سے تین سال سے نقصان میں جانیوالے کاروبار کی آڑ میں بڑے بڑے قرضے معاف کرنے کی راہ ہموار کی گئی اور اس مقصد کیلئے قرضوں کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا۔(اے) پانچ لاکھ روپے تک کا قرضہ۔(بی) پانچ لاکھ سے اوپر پچیس لاکھ تک کا قرضہ۔(سی)پچیس لاکھ سے اوپر کا قرضہ۔
سرکلر نمبر29کی میعاد چودہ اپریل2003ء تک تھی مگر قرضوں کی معافی کا سلسلہ بعد ازاں بھی جاری رہا ۔ عوام کے کرم فرمائوں نے یہاں بھی اپنے سٹیٹس کا خیال رکھا اور کیٹیگری (بی) اور کیٹیگری (سی) سے ہی استفادہ کیا۔ 2009ء سے 2012ء کے دوران قرضوں کی معافی کے حوالے سے بات کی جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خود حکومت نے ستمبر 2012ء میں قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش کی کہ ان چار سالوں میں چودہ سو چونتیس بااثر افراد نے112بلین سے زائد کے قرضہ جات معاف کروائے۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق2012ء سے2014ء کے عرصے میں بیس ارب سے زائد کے قرضہ جات معاف ہوئے۔قرضے معاف کروانے کا شرف جن لوگوں کو حاصل ہوا ان میں اس وقت کی حکومتوں کے منظور نظر بااثر افراد کے علاوہ سابقہ حکومتوں کے چہیتے بھی شامل تھے۔ ان رپورٹس کیمطابق وزراء ارکین پارلیمان ، بیوروکریٹ ،بااثر معروف وکلاء حتیٰ کہ ا یک وقت کی خاتون اول، پاکستان یا آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم جیسے بلند مرتبے پر فائز رہنے والے لوگ بھی مستفید ہوئے۔
ایک سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں پیدا ہوسکتا ہے کہ کمرشل بنک توکاروباری ادارہ ہوتے ہیں اور صاف ظاہر ہے منافع کیلئے بزنس کرتے ہیں پھریہ اتنے بڑے بڑے قرضے کیسے معاف کر دیتے ہیں۔ اب میں اس سادگی پر کیا کہوں جواب تو انتہائی سادہ اور عام فہم ہے اور آپ خودبھی سمجھ سکتے ہیں مگر آپ کے پاس میرے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ کاروباری لوگ بلا شبہ منافع کیلئے کاروبار کرتے ہیں مگر وہ شہر کے بدمعاش کو بھتہ کیوں دیتے ہیں؟ ایک عام آدمی اگر بیمار ہوتا ہے تو اپنے وسائل کے مطابق ادھر ادھر سے پوچھ گچھ کے بعد شفاء کی امید سے شہر کے بہترین ڈاکٹر سے رابط کرتا ہے ۔وہ جان بوجھ کر کسی گردہ چور ،لاپرواہ یا بری شہرت رکھنے والے شخص کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ایک اچھامعالج اپنے کام پر عبور رکھتا ہے مرض کی تشخیص اور علاج میں مہارت رکھتا ہے وہ کبھی جان بوجھ کر کوتاہی نہیں کرتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے اپنے مریض کے دکھ کا احساس ہوتا ہے۔وہ اپنی فیس تو لے گا لیکن مریض کی کھال نہیں اتارے گا۔اسکے بر عکس ایسے لوگ بھی اس مقدس شعبے میں گھس چکے ہیں جو آئی سی یو میں مرتے ہوئے مریض کو چھوڑ کر خوش گپیوں میں وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ابھی چند دن قبل وفاقی دارالحکومت میں واقع معروف ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈمیں ایک بائیس سالہ مریضہ سے گھنائونے فعل کا ارتکاب کیا گیااسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔مگر یہ اخلاقی پستی کی بد ترین مثال ہے جس کا احساس نام کی چیز سے دور دور کا واسطہ ثابت نہیں ہوتا اور یہ پورے شعبے کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ احساس اگر ہو تو انسان غیر ذمہ داری میں اس حد تک نیچے نہیں گرتا۔احساس اگر ہو تو معالج تشخیص و علاج میں اور عملہ نگہداشت میں کوتاہی برداشت نہیں کر سکتا۔لیکن سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ احساس اگر ہو توعوام کی امیدوں کا خون کر کے عوام کے ووٹوں پر عیش کرنیوالے یہ ارب پتی لوگ کیاذاتی مفاد کیلئے اربوں روپے کے قرضے معاف کروا سکتے ہیں؟کیا یہ عوام کے زخموں پر مرحم رکھنے کی بجائے انکے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں؟ چلیں جب تک کسی آئینی و قانونی فورم کی طرف سے نشان دہی نہیں ہوئی چشم پوشی کا جواز مانتے ہیں مگر جب تین سال پہلے ہی جمشید کمیشن نے تفصیلی رپورٹ میں دود ھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردیا تھا تو جمشید کمیشن رپورٹ میں تجویز کردہ سفارشات پر عمل کرنے میں کیا رکاوٹ حائل ہوئی۔ کمیشن نے تجویز کیا کہ معاف کئے گئے قرضوں کی ریکوری کی جائے۔کمیشن نے تجویز کیا کہ ذمہ داروں کیخلاف کاروائی کی جائے۔کمیشن نے ایسے قرضہ جات کی ریکوری کیلئے قانون سازی کرنے کی بھی سفارش کی۔ مگر اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ان سفارشات پر عمل درآمد میں تساہل اور کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے؟