غرور اس تکبر یعنی بڑا بننے کو کہتے ہیں جو سراپا جھوٹ‘ سراسر بے حقیقت اور کھلا دھوکہ ہوتا ہے‘ اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا فرد یا گروہ بہت بڑا خطرہ ہوتے ہیں۔ یہ دوسروں کیلئے کم مگر خود اپنی ذات کیلئے زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘ ہمارا لبھورام یعنی بھارت کا گھمنڈی برہمن اسی غرور میں مبتلا چلا آتا ہے‘ اس برہمنی غرور کی سب سے گھٹیا اور گھناو¿نی شکل تو خود کو خلق خدا سے برتر‘ اونچا بلکہ دیوتا سمجھنا اور منوانا ہے‘ البتہ گھمنڈی برہمن کا سب سے زیادہ خطرناک اور سب سے بڑا غرور تو خود کو برعظیم جنوبی ایشیا کا واحد مالک اسے ہندو ریاست میں ڈھال کر یہاں کی واحد سپرپاور بننے کی خود فریبی ہے‘ برہمن سمجھتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے تمام غیر ہندو انسانوں کو زبردستی ڈنڈے کے زور سے نہ صرف ان سے ان کا مذہب چھڑوا کر انہیں ہندو بنا سکتا ہے بلکہ انہیں اپنے طبقاتی معاشرہ کی لعنت میں گرفتار کرکے پست ترین طبقہ یعنی اچھوت بنا کر اپنا قیدی اور غلام بھی بنا سکتا ہے مگر ستم بالائے ستم یہ ہے وہ جدید دنیا میں خود کو جمہوری اور سیکولر بھی منواتا ہے!
مغرور برہمن اپنی آریائی عیاری سے یہاں کے اصل باشندوں یعنی دراوڑوں کو زبردستی اچھوت بنا چکا ہے‘ بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں پر عرصہ حیات تنگ کرکے انہیں نابود کر چکا ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اب وہ اسلام اور مسیحیت کو بھی اسی طرح موت کے گھاٹ اتار کر سکھ کی بانسری بجانے کے موڈ میں ہے۔ گویا جنوبی ایشیا کے انسانوں کو اسلام کے پیغام برادری اور برابری یعنی اخوت و مساوات سے محروم کرنے اور انہیں سیدنا مسیح علیہ السلام کی شفقت اور رحمدلی سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے‘ ہندو مہاسبھا کا تو یہ کھلا اعلان ہے مگر ہندو کانگریس کے بزدل منافقین موقع اور محل کے قائل تھے مگر اصل پروگرام کانگریسیوں کا بھی یہی ہے جسے نریندر مودی اور ادتیاناتھ یوگی کے بے جی پی نے کھل کر اپنا لیا ہے اور اب اس کے عملی نفاذ میں مگن ہے‘ یہیں سے گھنڈی برہمن کے غرور کے چکنا چور ہونے کا آغاز ہوتا ہے‘ ایک تو عصر حاضر کے بیدار مغز اور روشن خیال انسان کے سامنے اس نے گھمنڈی برہمن کو ننگا کر دیا ہے‘ دوسرا برہمن کے پروگرام کو بھارت کے غیر ہندو مظلوموں نے بھی مسترد کر دیا ہے ان میں سرفہرست کشمیری آزادی پسند ہیں جو کبھی تو ٹھنڈی برف تھے مگر اب وہ برفانی آگ بن چکے ہیں اور مغرور برہمن کو بھسم کرکے اس کی راکھ کو سمندر میں پھینکنے کیلئے پرعزم ہیں!
لیکن مودی ۔ یوگی کے نام نہاد اونچی ذات کے ہندو گروہ نے گھمنڈی برہمن کے غرور چکنا چور کر دینے کا سامان خود کر دیا ہے! تشدد اور دہشتگردی سے کام لیکر بڑا بننا اور حکمرانی کے خواب دیکھنے کے زمانے اب بیت گئے‘ یہ تو بہت پرانی سوچ ہے جو ستر سال سے بلکہ سو سال سے گھمنڈی برہمن کے دماغ میں پرورش پا رہی ہے اور وہ اپنی نسلی برتری اور دہشتگردی سے جنوبی ایشیا پر حکمرانی کے تانے بانے بننے میں لگا ہوا ہے‘ خصوصاً سامراجی گورے نے جاتے ہوئے اسے ہندو اکثریت کی لوری بھی سنا گیا ہے مگر اونچی ذات کے ہندو کی اول تو اکثریت ہے ہی نہیں‘ جنوبی ایشیا میں اصل اکثریت تو غیر ہندو اقوام کی ہے جن میں مسلمان‘ مسیحی‘ سکھ اور دراوڑ یا اچھوت وغیرہ سرفہرست ہیں‘ اس کے علاوہ قائداعظم نے جہاں ہندو کے اس دعوے کو جھٹلایا اور مسترد کیا تھا کہ مسلمان ہندو اکثریت سے ٹوٹنے اور الگ ہونیوالا ایک فرقہ ہیں جسے ہر حال میں ہندو اکثریت کا حصہ بننا پڑیگا‘ وہاں قائدے ہندو¶ں کے دعوے اکثریت کو جھٹلاتے ہوئے اونچی ذات کے ہندو کو بروٹل میجارٹی یعنی درندہ صفت اکثریت بھی قرار دیا تھا جو ستر سال کے دوران میں برہمن نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے‘ آج بھی اگر مودی ۔ یوگی گروہ اگر تیار ہو تو صرف اسی بات پر جنوبی ایشیا میں یعنی بھارت‘ پاکستان‘ بنگال‘ سری لنکا اور نیپال وغیرہ سمیت سارک کے ممالک میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کروایا جا سکتا ہے اور اس سے بھی گھمنڈی برہمن کا غرور چکنا چور ہو سکتا ہے۔ فریب کار برہمن اس حقیقت سے آگاہ ہے‘ اسی لئے بقول ہمارے دوست پروفیسر فتح محمد ملک گھمنڈی برہمن ذہنی طور پر اقلیت ہونے کے خوف میں مبتلاہے‘ اس لئے تو کانگرسی منافقین قائداعظم کی اس کوشش سے تلملا اٹھے تھے کہ دلت اور سکھ پاکستان کا حصہ بننے کیلئے تیار ہیں! مگر فریب کار برہمن نے ڈاکٹر امبیدکر اور سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کو خوشامد اور دھوکے سے شیشے میں اتار لیا تھا!
گھمنڈی برہمن کے غرور کو چکنا چور کرنے کیلئے آج بھی قائداعظم اور قائد ملت کی ضرورت ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا جری‘ صاف گو اور نڈر لیڈر ہم میں نہیں ہے‘ سب بزدل‘ موقع پرست اور برہمن کو بڑا بھائی کہنے والے ہم پر مسلط چلے آتے ہیں‘ یہ ہندو¶ں کو کھرا کھرا جواب دینے سے قاصر ہیں‘ یہ تو دنیا کو اپنی سچائی سے متعارف بھی نہیں کروا سکتے! برہمن کوئی مسئلہ حل کرنے کے بجائے نئے سے نئے مسائل پیدا کر دیتے ہیں! یہ برہمن صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے جو ہمارے ان لیڈروں کے پاس ہے ہی نہیں‘ خوشامدانہ رویہ یا دوستی برہمن کی زباں میں ہے ہی نہیں لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں‘ اب یہ کام پاکستان کے عوام نے خود کرنا ہے بالکل کشمیری آزادی پسندوں کی طرح! اللہ کے ان شیروں نے برہمن کا غرور چکنا چور کر دیا ہے لیکن ابھی تو بہت کچھ ہونے کو ہے جو برہمن کے غرور کو چکنا چور کر دینے کیلئے کرنا ہو گا!