رسومات‘ توہمات اور شادیاں

ہر علاقے کی رسومات الگ ہوتی ہیں۔ یہ رسومات اس علاقے کی شناخت بن جاتی ہیں کچھ علاقوں میں یہ رسومات توہمات کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہیں۔جیسے زمانہ قدیم میں دریائے نیل کے کنارے آباد لوگ اس بات کو ضروری سمجھتے تھے کہ ہر سال نیل کے کنارے ایک نوجوان دوشیزہ کا خون بہانا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر دریا بہنا بند ہو جائے گا۔ یہ سلسلہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے مصر پر قبضہ کرنے سے پہلے تک چلتا رہا۔ ہندو¶ں کا عقیدہ تھا کہ سمندر کے پانی کو چھیڑنے سے سمندر کا دیوتا ناراض ہو جائے گا اور طوفان کی صورت انہیں ہلاک کر ڈالے گا۔ یہ عقیدہ اب بڑی حد تک دم توڑ گیا ہے کیونکہ نیوی اور ماہی گیروں کی صورت میں ہندو سمندر سے دوستی کر چکے ہیں۔ چینی اپنے نئے سال کے آغاز پر پٹاخے بجاتے ہیں تاکہ بدروحیں بھاگ جائیں اور پچھلے سال کی بدقسمتی کو ختم کرنے کیلئے نئے سال سے ایک دن پہلے ہی گھر کو صاف کر لیتے ہیں۔ نئے سال کے پہلے دن گھر کو صاف نہیں کرتے تاکہ خوش قسمتی غلطی سے جھاڑو کے ساتھ گھر سے باہر نہ نکل جائے۔ دنیا بھر کے ممالک میں سب سے زیادہ دلچسپ رسومات شادی بیاہ کے موقع پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔فجی میں لڑکے کو رشتہ مانگنے سے پہلے اپنی ہونے والی دلہن کو وہیل مچھلی کے دانت بطور تحفہ دینا پڑتے ہیں جب تک اس تحفے کا بندوبست نہ ہو لڑکی کے والدین رشتہ پر آمادگی ظاہر نہیں کرتے۔ ماضی میں تو یہ کام بہت مشکل ہوتا ہو گا جب لڑکے کو شادی کا پیغام بھیجنے سے پہلے یا تو وہیل کا شکار کرنا پڑتا ہو گا یا پھر کسی وہیل سے دوستی کرکے اس کے دانت کچھ دنوں کے لئے ادھار لینے پڑتے ہوں گے۔ اب بہرحال یہ معاملہ مختلف ہے کیونکہ وہیل کے دانت بازار سے باآسانی خریدے جا سکتے ہیں۔کانگو کے پگمی قبائل میں یہ رواج ہے کہ دلہن اپنے دلہا کے ماتھے پر نوکیلے آلے سے اپنا نام کندہ کرواتی ہے تاکہ کوئی اور عورت اس کے شوہر پر حق نہ جتا سکتے۔ اسی طرح کی ایک رسم سوڈان میں بھی رائج ہے جس میںدلہن اپنے شوہر کے منہ کو داغ دیتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اسے اپنے شوہر سے بے پناہ محبت ہے اور داغنے کا نشان اس کی محبت کا ثبوت ہوتا ہے محبت کے اتنے دردناک نشانات کم از کم پاکستانی مرد تو برداشت نہیں کر سکتے اور اگر ایسا معاملہ کبھی ہمارے ملک میں ہوا تو مرد شادی یا محبت کے نام سے ہی تائب ہو جائیں گے۔1991 ءمیں کرغیزستان میں ایک رسم پر پابندی لگائی گئی جس میں ہونے والی دلہن کو شادی کے دن اغواءکر لیا جاتا تھا اور اسے خوب رلایا جاتا تھا۔ دلہن کے آنسو جتنے زیادہ بہتے اسے اتنا زیادہ اچھی زندگی کی ضمانت سمجھا جاتا۔ دلہن کا زار و قطار رونا شادی شدہ زندگی کیلئے انتہائی نیگ شگون سمجھا جاتا تھا۔ یہ رسم اب بھی چوری چھپے ادا کی جاتی ہے۔ اصل میں اس رسم میں دلہن کو رلانے کا مقصد یہ ہونا چاہئیے کہ ان کا رونا آج ہی ختم ہو جائے گا۔ تاہم دولہا کو ساری زندگی رو رو کر ہی گزارنی ہے۔ ہمارے ہاں اس رسم کی اتنی ضرورت نہیں ہے کیونکہ رخصتی کے وقت دلہنیں خود ہی دل کھول کر رو لیتی ہیں۔ اس مقصد کیلئے ان کا اغواءضروری نہیں ہوتا۔میانمار میں لوگ اپنے بچوںکے پیدا ہونے کا دن یاد رکھتے ہیں جب ان کی شادی کا وقت آتا ہے تو اس بات کا خاص دھیان رکھا جاتا ہے کہ ایک ہی دن پیدا ہونے والے لوگوں کی آپس میں شادی نہ ہونے پائے۔ اگر یہ شادی ہو جائے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ مثلاً بدھ کو پیدا ہونے والے لڑکے کی شادی اسی دن پیدا ہونے والی لڑکی سے نہیں کی جاتی۔ سری لنکا میں جوتشی سال میںایک دن کو شادی کیلئے بہت موزوں قرار دیتے ہیں لوگ اس خصوصی دن کا کئی کئی مہینے انتظار کرتے ہیں اور کئی شادیاں ایک ہی دن سرانجام پا جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے کسی دن کا وجود نہیں ہے ہم ہر دن کو بابرکت سمجھتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ایک ہی خرچے میں اپنے چار چار بچوں کی شادیاں ایک ہی دن کر دیں۔ ہمارے ہاں نہ جوتشی ہیں نہ پنڈت۔ہمارے ہاں ہر کوئی کسی جوتشی یا پنڈت سے زیادہ عقل رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنے فیصلے میں آزاد ہوتا ہے۔ البتہ فیصلہ مذہبی و ثقافتی حدود میں ہونا چاہئیے۔ ہمارا مذہب اعتدال میںرہ کر ہر کام کرنے کی آزادی دیتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن