خیبر پی کے کی گڈگورننس کے چرچے سنے’ عوام تو بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں : چیف جسٹس

پشاور (صباح نیوز‘ نوائے وقت رپورٹ‘ آئی این پی) چیف جسٹس ثاقب نثار نے صاف پانی کی فراہمی سمیت مختلف کیسز کی سماعت کے دوران وزیراعلی خیبرپی کے پرویز خٹک کو طلب کرلیا اور ریمارکس دیئے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری تھی جو وہ نہ کر سکی، خیبر پی کے کی گڈگورننس کے چرچے سنے لیکن آج یہاں آ کر معلوم ہو رہا ہے کہ عوام بہت ساری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جمعرات کوچیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں ہسپتالوں کی حالت زار، عوام کو پینے کے پانی کی فراہمی، تعلیم کی صورت حال سمیت مختلف کیسز کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا پی ٹی آئی کے بارے میں سنا تھا کہ یہاں کی گڈگورننس بہت مشہور ہے۔ آج یہاں آ کر معلوم ہو رہا ہے کہ عوام بہت ساری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وزیراعلیٰ عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ اب تک انہوں نے یہاں کے عوام کو کیا دیا ہے۔ لوگوں کو گندا پانی دے رہے ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے پی سی ون کب بنے گا؟ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ گندگی کہاں پھینک رہے ہیں تو اس پر چیف سیکرٹری نے بتایاگندگی دریا¶ں میں پھینک رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا آپ یہ پانی پینے کے لئے کیسے دے رہے ہیں؟ آپ لوگوں کو گندا پانی دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گندگی کو ڈمپ کرنے کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ آپ کا اس حوالے سے کوئی پروگرام ہی نہیں۔ آپ نہ کریں ہم کرا لیں گے۔ چیف جسٹس نے سکولوں میں طلباءکو سہولیات کی عدم فراہمی پر بھی اظہاربرہمی کیا اور کہا کہ طلباءکو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ممکن کیوں نہیں بنایا گیا۔ چیف سیکرٹری کے پی نے عدالت کو صوبہ میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بتایا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہاں پر لوڈشیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ آیا بجلی پیدا کرنے کے لئے متبادل ذرائع ہیں یا نہیں۔ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ بجلی بنانے کے حوالے سے وفاقی حکومت حوصلہ افزائی نہیں کر رہی۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ وہ اس حوالے سے مکمل رپورٹ دیں۔ چیف جسٹس نے کمرئہ عدالت میں سینئر وکیل اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن قاضی محمد انور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ صاف پانی اور تعلیم کے لئے آواز اٹھائیں۔ کہتے ہیں تو میں اتوار کو بھی آ جا¶ں گا۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ ڈبے کے دودھ کا ٹیسٹ کروایا۔ اس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ڈبے کے دودھ کا ٹیسٹ نہیں کروایا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پانی کی بوتل کا ٹیسٹ کروایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے پنجاب میں 1300 کمپنیاں بند کروائی ہیں۔ چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کام کیوں نہیں ہوا۔ اگر یہ کام نہیں ہوتا تو کیا یہ کام ہمیں کرنا پڑینگے اور لگ ایسا رہا ہے کہ اب یہ کام ہم خود ہی کرینگے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا وقت گزر رہا ہے تاہم اب تک یہ کام نہیں ہوئے جبکہ کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پولیس کے پی صلاح الدین خان محسود کو حکم دیا کہ وہ غیرمتعلقہ افراد سے فوری طور پر سکیورٹی واپس لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غیرمتعلقہ افراد کے پاس کتنی پولیس فورس سکیورٹی کے نام پر ہے۔ اس پر آئی جی پولیس کے پی نے بتایا کہ 3000 کے قریب ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا تمام صوبوں میں غیرمتعلقہ افراد سے سکیورٹی رات تک واپس لے لی جائے۔ اس پر آئی جی پولیس نے غیرمتعلقہ افراد سے سکیورٹی واپس لینے کی یقین دہانی کروا دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا شخصیات سے سکیورٹی واپس لے کر عوام کی حفاظت پر لگائیں جبکہ چیف جسٹس نے الرازی میڈیکل کالج پشاور کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے کالج کے مختلف حصوں کا معائنہ کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہاسٹل، ٹرانسپورٹ اور لیبارٹری کے نام پر طلباءسے لاکھوں روپے وصول کئے جا رہے ہیں۔ فیسیں بھی اتنی زیادہ ہیں اور کالج کا یہ حال ہے۔ چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ کالج کا ریکارڈ اپنے قبضہ میں لے لے۔علاوہ ازیں چیف جسٹس نے پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف وارڈز کا معائنہ کیا، اس موقع پر آئی جی کے پی کے اور محکمہ صحت کے حکام بھی ان کے ہمراہ تھے۔چیف جسٹس کے دورے کے موقع پر ہسپتال میں موجود شہریوں نے شکایات کے انبار لگادیئے۔شہریوں نے شکوہ کیا کہ سکیورٹی نہیں، علاج نہیں، کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ چیف جسٹس صاحب آپ سے توقعات ہیں۔چیف جسٹس نے طلباءکی اضافی فیس واپس کرنے کا حکم دیتے ہوئے پرنسپل اور دیگر عملے سے تعلیمی اسناد طلب کر لیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک عدالت میں پیشہ ہوئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پرویز خٹک سے دریافت کیا صوبے کی آبادی کتنی ہے۔ مجھے صحیح علم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کی کارکردگی کے بہت چرچے سنے تھے اب تو آپ کی مدت بھی ختم ہونے والی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم جب یہاں آئے تو حالات بہت خراب تھے ۔ ہماری کارکردگی کا نتیجہ دو سال بعد سامنے آئے گا۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا آپ نے کون سے سکول بنائے۔ سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ سکول بنائے لیکن 5 سال میں آبادی تیزی سے بڑھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا آبادی کو کنٹرول کرنے کے کیا اقدامات کئے۔ پرویز خٹکسے پوچھا آپ عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں آپ کو عوام نے ووٹ کام کیلئے دیئے ہیں۔ پرویز خٹک نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کام کیا اور آئندہ بھی حکومت بنائیں گے۔
سپریم کورٹ
پشاور(صباح نیوز‘ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں، اور میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتا اور ہمارے بارے میں کوئی یہ نہ کہے کہ ہم نے ذمہ داری پوری نہیں کی، انصاف تول کر دیا جانا چاہیے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی، ہم نے مداخلت شروع کر دی ہے، اب ہم بھی ریاست میں آتے ہیں، ججز کی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے، سچ جھوٹ کا فیصلہ کرنا ججز کا کام نہیں۔ پشاور میں ضلعی بار کے صدور کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ تنقید کرتے ہیں ہم فیصلہ جلد اور قانون کے مطابق نہیں کررہے۔ میں قانون بنانے والا نہیں اسے نافذ کرنے والا ہوں۔ 1861 اور 1872کا قانون تبدیل نہ ہونے کی ذمے دار سپریم کورٹ نہیں۔عدالتیں نہیں بنائی گئیں، ججز نہیں دئیے گئے اور اگر ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں۔ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے لیکن میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتا۔ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ۔ سچ جھوٹ کا فیصلہ کرنا ججز کا کام نہیں۔ مسائل حل کرنا تمام ججز کی ذمہ داری ہے اور جیسے بھی مصائب ہوں گے اس میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جو قانون کے ساتھ آتی ہیں اور میں قانون بنانے والا نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کرانے والا ہوں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دفتر نے کئی کیسز پر اعتراضات لگا کر اپنے پاس رکھا تھا۔ ان کیسز کو سننے یا نہ سننے سے متعلق فیصلہ ججز کو کرنا تھا دفتر کو نہیں، اس طرح کی 225پٹیشن میرے پاس آئیں جو روزانہ 10،10کر کے نمٹائیں۔ 19مارچ کو ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد خان کی جانب سے فل کورٹ ریفرنس قبول نہ کرنے سے متعلق قیاس آرائیوں کے بارے میں چیف جسٹس نے بتایا دوست محمد خان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے پوچھا کس دن ریفرنس لینا پسند کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ والے دن لوں گا، لیکن پھر انہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر ریفرنس لینے سے انکار کردیا۔چیف جسٹس نے کہا مجھے نہیں پتہ اور نہ ہی جسٹس دوست محمد خان نے آج تک وضاحت کی کہ انہوں نے ریفرنس کیوں قبول نہیں کیا۔ ان کی تقریر دکھانے والی بات قطعی غلط ہے۔ پھر بھی میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس پر معذرت کرتا ہوں اور ازالہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں مجھ پر الزامات لگائے گئے۔ بار نے مجھے اتنا گھٹیا، نیچ اور کم ظرف سمجھ لیا کہ اپنے جانے والے دوست کو اس طرح رخصت کروں گا کہ ساری زندگی اس پر ندامت ہوتی رہے۔ میںنے ان سے کبھی تقریر دکھانے کا نہیں کہا۔ جسٹس دوست محمد کل آجائیں انہیں فل کورٹ ریفرنس دینے کے لیے تیار ہوں۔ پشتون میرے بھائی اور میری جان ہیں اس جہاد میں بار کو بھی اپنا کردار کرنا ہوگا میں اکیلا کچھ نہیں کرسکتا۔ آئیں اور مل کر ایک ساتھ کام کریں۔ ہسپتالوں میں لوگوں کو تکلیف میں دیکھا ہے جس آدمی کو وقت پر انصاف نہیں ملتا وہ بھی تکلیف میں ہے۔ عدالتوں میں جھوٹ کا نظام ختم کرنا ہوگا۔ بعدازاں چیف جسٹس نے جوڈیشل اکیڈمی پشاور میں زیرتربیت سول ججز سے کہا کہ دنیا کے آئین میں عدلیہ اہم ستون ہے، جج کیلئے قانون جاننا ضروری ہے۔ انصاف فراہم کرنا ججز کی ذمہ داری ہے۔ فیصلے قانون کے مطابق ہونے چاہئیں۔ عدلیہ کی موجودگی کے بغیر ریاست کا وجود ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ فیصلے کی آخری جگہ ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایگزیکٹو اور تمام عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ہم سب کو قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم چیز انصاف ہے۔ ہمارے دین میں انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ قاضی اور جج میں فرق ہوتا ہے۔ جج کو تنازع کا حل قانون کے مطابق نکالنا ہوتا ہے۔ قانون کی مکمل معلومات ہوں تو صحیح فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ انصاف کرتے ہوئے خوف دل سے نکالیں اور سفارش نہ مانیں۔ رزق بھی کمائیں اور دعائیں بھی لیں۔ میں آپ کا بڑا بھائی بھی ہوں، آپ اپنے بزرگ کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...