;;”ووٹ کو عزت دو“

خوش قسمتی کا باعث ہے کہ آج 70 سال بعد ہمارے سیاستدانوں کو بھی ووٹ کی عزت کا خیال آہی گیا ہے۔ عوام بے چارے تو 70 سال سے ہی رونا رو رہے ہیں کہ ہم سے ووٹ بھی لیتے ہو تو ہمارے مسائل بھی حل کرو۔ ہمارے ووٹوں کی عزت و احترام کرو۔ مگر سیاستدان ووٹ لینے کے لئے تو منتیں، ترلے کرنے کے علاوہ بے شمار جھوٹے وعدے بھی کرتے ہیں۔ جب اقتدار مل جاتا ہے تو سب کچھ بھول کر اقتدار کے نشے میں صرف ذاتی مال و متاع بنانے پر لگ جاتے ہیں۔ یہی سوال آج کل عدالتوں میں پوچھا جارہا ہے کہ ”مال کہاں سے حاصل کیا“ بہرحال حکومتی پارٹی کا یہ نعرہ کہ ”ووٹ کو عزت دو“ ویسے تو عدلیہ کے بارے میں ہے مگر یہی نعرہ 20 کروڑ عوام کا سیاستدانوں کے لئے بھی ہے۔ آمر شب خون مار کر ووٹ کی تحقیر کرتا ہے سیاستدان ووٹ لینے سے قبل کئے گئے وعدے بعد میں فراموش کر دیتا ہے۔ اگر ووٹ کی عزت ہوتی تو کشمیری مسلمانوں کا اتنا برا حال کبھی نہ ہوتا جس سے وہ آج کل دو چار ہیں۔ مگر ہمارے حکمران بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں کلبھوشن کئی ماہ سے فوجی عدالت سے سزا یافتہ ہے مگر ابھی تک اسے پھانسی نہیں دی گئی یہ 20 کروڑ عوام کے ووٹ کی توہین نہیں ہے؟ ہر سال صرف پانچ فروری کو کشمیری مسلمانوں کے لئے چند رٹے رٹائے فقرے بول دینا کیا حکمرانوں کا یہی فریضہ ہے؟ اگر عوام کے ووٹوں کو مقدس سمجھا جاتا اور انہیں عزت دی جاتی تو آج 70 سال بعد عوام کے بنیادی مسائل تو ضرور حل ہو چکے ہوتے آج بھی عوام بجلی، گیس اور پینے کے لئے صاف پانی سے محروم ہیں۔ ہسپتالوں میں دوائی نہیں ملتی۔ اگر ووٹ کی عزت کی جاتی تو آج چیف جسٹس کو عوام کے مسائل کے حل کیلئے ہسپتالوں کے دورے کیوں کرنے پڑتے۔ بلاشبہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔ مگر جب معاشرے میں اس حد تک بگاڑ پیدا ہو جائے تو ملکی اداروں کو اپنے فرائض کو بروے کار لانا پڑتا ہے۔ تھانے عوام کے مسائل اور تحفظ کے لئے بنائے گئے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں پویس عوام کو تحفظ فراہم کرتی ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاستدان اپنے ذاتی مفاد کے لئے پولیس کو استعمال کرتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے برملا کہا تھا کہ ہر تھانہ کروڑوں میں بکتا ہے پھر وہاں سے کروڑوں پورے کئے جاتے ہیں۔ تھانوں میں عام غریب شہریوں کی جس انداز میں تذلیل کی جاتی ہے اس سے انسانیت بھی شرماتی ہے۔ ان کو ٹھیک کرنا سیاستدانوں کا کام ہے مگر انہیں فرصت ہی نہیں ملتی مگر عوام کو مروانے کے لئے پولیس کا استعمال کرلیا جاتا ہے۔ کیا عوام سیاستدانوں کو اس لئے ووٹ دیتے ہیں؟ اگر ووٹ کی عزت دی جاتی تو قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لئے کم از کم جدوجہد تو کی جاتی۔ بدقسمتی سے قائداعظم کا سیاسی وارث بننے کا تو ہر کوئی ”دعویدار“ ہے مگر قائداعظم کا کردار اپنانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری و قومی زبان اردو ہوگی۔ 73ءکے آئین میں قومی زبان کے عملی نفاذ کے لئے پندرہ سال کی مدت مقرر کی گئی یعنی 1988ءتک قومی زبان کا نفاذ ہر حال میں ہو جانا چاہئے تھا مگر کئی پندرہ سال گزر گئے یہاں تک کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے مگر سیاستدانوں کے کانوں پر پردے پڑے ہیں۔ یہ ہے بانی پاکستان، آئین پاکستان سے وفاداری اور ووٹروں کی عزت و احترام؟ حکمران طبقہ اپنے محلات کے اردگرد تو ہزاروں سرکاری محافظ بٹھالیتے ہیں جن کو تنخواہیں بھی قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہیں۔ جو کہ قانونی اخلاقی اور شرعی طور پر بھی نا مناسب ہے مگر عوام کی معصوم بیٹیوں کی حرمت پامال ہوتی ہے، انہیں قتل کردیا جاتا ہے ان کے تحفظ کے لئے ایک فیصد بھی عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ اپنی ذات کے فائدے کے لئے راتوں رات نئے قانون پاس کرلیے جاتے ہیں مگر عوام کی فلاح کے لئے قانون سازی کرتے ہوئے انہیں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں سیاست دانوں نے ذاتی پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور جامعات بنائی ہوئی ہیں۔ لاکھوں روپے فیس کے نام پر بٹورے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان حضرات ہی سرکاری ہسپتالوں سے علاج کراتے ہیں نہ ان کی اولادیں سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اپنی ذاتی ٹرانسپورٹ کو کامیاب کرنے کے لئے ریل کو ناکام کیا جارہا ہے۔ عوام بے چارے ہر بار اعتماد کر کے ووٹ تو دیتے ہیں مگر ذلت بھی مول لیتے ہیں۔ ایس ایچ او، ڈی پی او اور آئی جی یہ سب عوام کے مسائل حل کرنے کے پابند ہیں۔ مگر ایک فیصد تک عوام کو بھی رسائی ان تک ہو ہی نہیں سکتی۔ یہی حال حکمرانوں تک رسائی کا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا منشور ”اقتدار کا حصول“ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔آج عوامی جلسوں میں جوتے مارنے کا کلچر بھی فروغ پا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سب عوام کے ووٹ کی بے حرمتی کرنے کا نتیجہ ہے۔ سیاست دان رول ماڈل ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں سیاست میں یہ حضرات ایک دوسرے کے لئے گندی غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ نوجوان نسل کو یہ کیا سبق دیا جارہا ہے؟ ہر کوئی اگر اپنے اپنے گریبان میں جھانک لے تو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ جمہوریت میں تو عوام کی طرف سے دئیے گئے ووٹوں کو عزت دینے کی ذمہ داری صرف اور صرف سیاستدانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جوکہ آج تک عوام کو نہیں ملی۔

ای پیپر دی نیشن