ٹکراﺅ عروج پر

مسلم لیگ نون اور عدلیہ کے درمیان ٹکراﺅ خوفناک حد تک اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج کے کالم میں راقم اپنا کوئی تجزیہ پیش کرنے کی بجائے سابق وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں کے تازہ ترین بیانات تفصیل کے ساتھ پیش کرے گا اور ان کے لگائے گئے الزامات کے جواب عدلیہ کا موقف فاضل چیف جسٹس جناب ثاقب نثار اور دیگر جج صاحبان کی طرف سے ان کی اپنی زبان میں پیش کیا جائے گا۔ اب چونکہ بات بیانات سے آگے نکل چکی ہے اور ایک سینئر سپریم کورٹ کے جج کی رہائش گاہ کو دو مرتبہ گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے لگتا ہے کہ حالات تیزی کے ساتھ تین چار ہفتوں کے اندر اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں۔گذشتہ روز میاں نواز شریف نے ۔”ووٹ کو عزت دو“سیمینار سے خطاب کیاہے کہ عوام کی بات نہ سنی گئی تو بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں۔ پختوانخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پارلیمنٹ الیکشن کے بعد نا اہلی بیک جنبش ختم کر دے گی۔ ترکی کی طرح سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور نہ کیا جائے۔ میاں نوازشریف نے مزید کہا کہ وفاداریاں بدلنے والوں کو عبرت ناک سزا ملنی چاہئے۔ جتنی مرضی زبان بندی کرلو جیت ہماری ہو گی۔ غیر مہذب پابندیاں نہیں لگائی جا سکتیں۔ بتایا جائے عدلیہ کے خلاف بات کا کیا مطلب ہے۔ قانون کے دائرے میں احتجاج سب کا حق۔ دنیا بدل گئی چاہتا ہوں سارے مل کر چلیں۔ ہمیشہ ڈیموکریٹک قوتوںکو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے نشانہ بنایا جاتارہا ہے۔ مجھے‘ بے نظیر کو نکالا گیا۔ ووٹ کے تقدس کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ عدلیہ آمروں کے سامنے نہ ٹھہر سکی نہ بکنے والوں کو ٹکٹ دیں گے۔ لیگی شخصیات نیب کے نشانے پر ہیں۔ میرے خلاف ایٹمی دھماکوں‘ موٹر وے بنانے کا ریفرنس بھی بنا دیں۔ چینی پاکستان کی محبت میں آئے‘ مگر انہیں حالات پر تحفظات ہیں ہم ستر برس تک بیمار سوچ کا خاتمہ کیوں نہ کر سکے۔ آج ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ میدان میں نکلا ہوں۔ قائداعظم کی جدوجہد جمہوری اصولوں پر مبنی تھی۔ جمہوریت اجنبی نہیں عوام کی حکمرانی کا نام ہے۔ عوام ووٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ عوام ووٹ کے ذریعے فیصلہ سناتے ہیں۔ ریاست عوام کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ ووٹ کی پامالی سے بھری پڑی ہے۔ ووٹ کے تقدس کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ عوام کے فیصلے کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ کسی کو حکمرانی کا حق دیناعوام کا اختیار ہے۔ عوام کی رائے کو بار بار کچلا گیا۔ یہ پتہ چلانا چاہئے کہ ایسی سوچ معاشرے میں کیوں پیدا ہوئی۔ ملکی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی استحکام ہو‘ بھٹو کو پھانسی دی گئی‘ دو بار بے نظیر کو اور تین بار مجھے ہٹایا گیا۔ یوسف رضا گیلانی بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ تقریباً 20 وزرائے اعظم 38 سال میں اقتدار میں آئے۔ وزارت عظمی سنبھالنے والا ایک بھی مقررہ مدت پوری نہ کر سکا۔ عوام کے ووٹ کی عزت بحال نہ ہوئی تو پاکستان مشکلات میں رہے گا۔ جمہوری قوتوں کو غیر جمہوری انداز میں نشانہ بنایاگیا۔ ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں آزادی ملنے کے بعد افراتفری کا سامنا رہا۔ ہمارے ماضی کی تاریخ ہمارے حال سے بھی ملتی جلتی ہے۔ مجھے وزارت عظمی اور پارٹی صدارت سے نااہل کر دیا گیا۔ بھٹو کو پھانسی بے نظیر کو قتل اور مجھے جلا وطن کیا گیا ۔ علاوہ ازیں احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج سب کا حق ہے سب کے یکساں حقوق ہیں۔ کسی کی زبان بند نہیں کر سکتے۔ زبان بندی کے فیصلے صرف پاکستان میں آتے ہیں۔ میری زبان بندی کی گئی لیکن یاد رکھیں جتنی مرضی زبان بندی کر لیں جیت ہماری ہو گی۔ عوام کی بات نہ سنی گئی تو بڑے پیمانے پر انتشار دیکھ رہا ہوں۔ قارئین آپ نے وزیراعظم کے الزامات سنے اب لازم ہے کہ جواب دعوی کے طور پر عدلیہ کی بھی بات سنیں۔ سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس سے بڑھ کر عدلیہ کی ترجمانی کون کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ پر دوسرا حملہ ہوا۔ ہائیکورٹ نے پابندی نہیں لگائی۔ نواز شریف اور مریم نے جو تقریر کرنی ہے عدالت آ کر کریں۔ جھوٹ بول کر عدلیہ کو بدنام کرنے کا منصوبہ ہے کس نے اصل خبر کو تبدیل کرایا۔ کون تحقیقات کرے گا۔ سپریم کورٹ کے دروازے پر گالیاں دی گئیں۔ ریاستی سکیورٹی کی ضرورت نہیں قوم ہمارا تحفظ کرے گی۔ تاثر پیدا کیا گیا سابق وزیراعظم اور بیٹی کو آف ائیر کرنے کا حکم دیا۔ اظہار رائے کا حق سلب کیا۔ دکھائیں فیصلے میں پابندی کہاں لکھا ہے۔ عدالت عالیہ نے آرٹیکل 19کے تحت درخواستیں نمٹانے کا حکم دیا۔ روز گالیاں نکالتے ہیں تین روز سے ایسے واقعات کا پتہ کرا رہاہوں۔ فاضل عدالت کے جسٹس جناب عظمت سعید نے کہا ہے کہ حکم کچھ جاری ہوا ڈھنڈورا کسی اور چیز کا پیٹا گیا۔ کسی نے باقاعدہ جعلی خبر چلوائی عدلیہ پر حملہ کیا۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آج پاکستان اپنی تاریخ کے ایک نازک ترین وقت سے گزر رہا ہے۔ انتخابات سر پرہیں۔ یہ وقت جلسے جلوسوں اور انتخابی جوش و خروش کے دورانیہ میں صبر عقل اور دانش سے حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کاہے۔ دہشت گردی کے باعث ریاست حالت جنگ میں ہے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر حالات سیاسی اور ملٹری لیڈر شپ کے لئے حالات کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کیلئے دن رات متحد اور چوکس رہنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ دو برس سے اوپر کا عرصہ ہو چکا ہے جبکہ تمام سیاسی پارٹیوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر قوانین میں ریفارمز کرنے گڈ گورننس کو یقینی بنانے اور شعبہ تعلیم و صحت میں انقلابی تبدیلیاں لانے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پارلیمان کے ذریعے منظور کیا تھا۔ اس میں کچھ ذمہ داریاں امن و امان‘ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت‘مدرسوں میں بہتری لانے‘ غیر رجسٹرڈ مدرسوں کو بند کرنے اور فاٹا میں جلد از جلد اصلاحات کے ذریعے نظم و ضبط کیلئے فوری اقدامات کا حکم دیا گیا تھا۔ ان میں سے فوج نے تو اپنی ذمہ داریاں مکمل کر لی ہیں لیکن سول حکومت کے حصہ کا نیشنل ایکشن پلان ابھی تک نامکمل خواب کا حصہ ہے اس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور ریاست اپنی آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندہ ہو۔پاکستان زندہ باد

ای پیپر دی نیشن