خود غرضی ہماری شناخت نہیں

معاشرے میں ’’احساسِ ذمہ داری‘‘ اور ’’اجتماعی سوچ ‘‘کی جگہ پنپتی ’’آپا دھاپی‘‘ ہمیں کس طرف لے جارہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو رشتوں میں محبتوں کا فقدان اور غرض کا عنصر ہر طرف نمایاں ہے۔ذاتی مفادات اجتماعی فوائد پہ کچھ یوں غالب ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا شیرازہ بکھرا ہوا نظر آرہا ہے جس ملک میں غربت کی لکیر تین ہزار تیس روپے تیس پیسے سے نیچے شروع ہوتی ہو تو پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے ایندھن کے بندوبست کے علاوہ اور کیا سجھائی دے سکتا ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب قابلیت اور اہلیت کو بالائے طاق رکھ کر من چاہے آپ کی تعریفوں کی مالا جپنے والے اہم سنگھاسن پہ بٹھائے جائیں گے تو انتشار، نا انصافی اور علم سے دھوکہ دہی کا کیچڑ ہی دامن کو داغدار کرتا دکھائی دے گا ۔ سوچتا ہوں ہماری اجتماعی سوچ کیوں انفرادی سوچ کے دھارے میں بہتی ہے کیوں اجتماعی مفاد ہماری پہلی ترجیح نہیں رہتا۔ ہمارے رویے کیوں اتنے منفی ہو گئے ہیں کہ ہم کسی کی خوشی میں غمزدہ اور کسی کی ناکامی پہ بغلیں بجاتے ہی نہیں تھکتے، حسد اور نفسیاتی بیماری کے امراض بڑھتے جارہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ علاج کے متعلق سوچنا تو درکنار اسے بڑھاوا دیتے اپنے اپنے گروہوں اور قبیلوں میں بٹتے جا رہے ہیں۔
ایک طبقے میں خود نمائی اور خود پسندی یوں عود آئی ہے کہ دوسرا طبقہ احساسِ محرومی کا شکار ہنس کی چال چلتا ہوا اپنی چال بھی بھولتا جا رہا ہے ، جس سے پیدا ہوتا ہوا بگاڑ ،حسد، کینہ اور بغض کا باعث بنا ہمیں اور ہماری یکجہتی کی اساس کو چاٹ رہا ہے۔ ہمارے رشتوں میں عدم توازن اور محبتوں میں مصنوعی پن نے دلوں کی دوریاں پاٹنے کی بجائے یہ خلیج اور بڑھا دی ہے ۔آپس کی یہ شکایتیں اس نہج تک جا پہنچتی ہیں کہ بہن بھائی بھی ایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے کیا رشتوں کا یہ معدوم ہوتا کاروبار ہم نے پیر محل میں نہیں دیکھا جہاں کسی کی آبرو ریزی کے بعد صلح کیلئے اپنی بہن کی عزت داؤ پہ لگائی گئی۔ اس صلح کا لکھا اقرار نامہ کیا ہماری اقدار کے منہ پر رسید کیا جانے والا وہ زوردار طمانچہ نہیں ہے کہ جس کی تپش تو گالوں پہ ہم نے محسوس کی لیکن بے حسی میں پھر انہی منفی رویوں کے تابع یہ کہتے ہوئے روز مرہ کے اشغال میں مصروف ہو گئے کہ مجھے کیا ۔
ہم بنیادی انسانی حقوق سے منہ موڑے اس کی طرف جھکتے اور بچھتے جاتے ہیں جہاں ہمیں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔محبتوں کا یہ جھکاؤ کیا فطری ہے ہم انسان کے پیدا کرنے کا مقصد تو ویسے ہی فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ انسان کے اندر احساسات کی ایک دنیا بسا کے رب العزت نے ہمیں دنیا میں بھیجا تھا۔ ہمیں آپس میں محبت ، یگانگت ، ہمدردی اور ایثار کے اوصاف سے آراستہ کرکے اُتارا تھا ۔ہماری راہنمائی کیلئے پھر اپنے رسول اور پیغمبر ہمارے درمیاں پیدا کئے تھے کہ وہ سب کو بتائیں کہ انسانیت اور انسانیت سے محبت ہی فلاح کا رستہ ہے۔ انسان سے محبّت کو رب کی محبّت میں پروتے ہوئے انسان کو اشرف المخلوقات ٹھہرایا تھا تاکہ ہم خلوص کے پیکر، مجسم محبت اور سراپائے ہمدردی ہوں لیکن کیا ہم آج ایسے ہی ہیں یا ہم ان احساسات سے بھٹکے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں یوں ہمہ تن مشغول ہیں کہ پناہ رب کی، قریبی رشتوں کا تیز دھار آلات پہ جما ہاتھ اور کٹے ہوئے گوشۂ جگر ان تمام تعلیمات کی نفی کر رہے ہیں جو مُحسنِ انسانیت نے اپنے اُمتیوں کیلئے مشعلِ راہ کے طور پہ ودیعت کی تھیں۔اخلاق کے اعلیٰ ترین درجات پہ فائز میرے نبیؐ نے ہر حالت میں امن و محبت کی تعلیم دی اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی تلقین کی۔انسان کی عزت کو کعبے کی حرمت پہ فوقیت دی۔ بے توقیری اور دشنام طرازی سے منع فرمایا ، آج کا انسان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہر دوسرے انسان کی بے توقیری پر اُترا ہوا ہے ، اور بے توقیری کے الفاظ میرے کانوں میں بار بار گونج رہے ہیں جس کو ادا کرنے والے میرے وطن پاکستان کے وزیراعظم صاحب ہیں۔سینٹ کے چئیر مین صادق سنجرانی پہ تنقید کرتے شاید وہ اپنا منصب ہی بھول گئے اور اپنی جماعت سے وفاداری نبھاتے ہو ئے بردبار شخصیت کے مالک شاہد خاقان عباسی ملک کے سب سے معتبر ادارے کے سربراہ پہ یوں چڑھ دوڑے کہ جیسے ان کے انتخاب میں سارا قصور ان کا ہی ہے۔کیا یہی سیاست آپ اور آپ کی جماعت وطنِ عزیز کے سیاسی حلقوں کیلئے نمونہ کے طور پر چھوڑیں گے ؟
ووٹ کو تقدس دلاتے دلاتے آپ خود اس ووٹ کے احترام کو پامال کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے نتائج آپ کی توقعات کے بر عکس ہوں لیکن آپ کے اُمیدوار کے مقابل حق رائے دہی کے استعمال سے جیتنے والے بلوچستان کے سنجرانی صاحب ایسی تحقیر اور رویے کے بلا شبہ حق دار نہیں ہیں ۔ ایسی تنقید اداروں کو بے وقعت کرتی ہوئی قانون سازی کے تمام اداروں پہ سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے۔ آج کونسلر سے لے کر ایوانِِ زیریں و بالا کے اراکین تک اس روایت نے تو سب کو تہہ و بالا کیے رکھا ہے۔

اب وقت ہے اس پراگندگی کو دفنا دینے کا اور نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا ، ایک دوسرے کی عزت کا اور اداروں کے احترام کا۔ اداروں کے حدود کے تعین کا اور انسانی اقدار کو توقیر دینے کا ۔اگر آج ہم ایک دوسرے کو عزت دیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی ترقی کرے گا اور زندگی کیلئے ہچکیاں لیتے ہوئے رشتے بھی اپنا آپ منوائیں گے ۔– ان رشتوں سے ابھرتی ہوئی قوم پھر ایک قوم کہلاتی ہوئی اپنی منزلوں کی جانب ایک بار پھر رواں دواں ہوگی۔ ان رشتوں کی افادیت اور اتحاد کی اہمیت میں اہلِ قلم کو اپنے ذاتی مفادات بھول کر معاشرے کی اصلاح کی خاطر اپنا کردار نبھانا ہوگا ۔

ای پیپر دی نیشن