خالد یزدانی
درویش شاعر ساغر صدیقی نے زمانے کی بے اعتنائی پر کہا تھا۔
مگر قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی گذشتہ پندرہ سالوں سے ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہی ہے ‘ جودنیا کی ’’سپر پاور‘‘ امریکہ نے اس پر لگائے تھے ۔ 30 مارچ 2018 ء کے موقع پر پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے ایک دکھی خط کو ’’ویب سائٹ‘‘ پر اہل درد کے لئے ’’پوسٹ‘‘ کیا تھا جس میں وہ لکھتی ہیں ’’جرم بے گناہی کی پاداش میں عافیہ کے قید تنہائی میں پندرہ سال مکمل ہونے والے ہیں، 30 مارچ 2003ء پاکستان کا ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کا وہ افسوسناک دن ہے، جب عافیہ کو اس کے تین کمسن بچوں سمیت اٹھا کر امریکیوں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ ان پندرہ سالوں میں یہ تیسری اسمبلی ہے جو کہ اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین حکومتوں نے ایک بے گناہ پاکستانی خاتون کی رہائی اور اسے وطن واپس لانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بہرحال عوام اور عافیہ کو ریلیف دینے کا فریضہ حکومت پاکستان اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی اداوں کو ہی ادا کرنا ہے۔ عوام کی جان ، مال عزت و آبرو کے تحفظ کا فریضہ حکومت، پارلیمنٹ اور سرکاری حکام ادا نہیں کریں گے تو پھر یہ فریضہ آج کون ادا کرے گا؟اس کے لئے ہم سب کو مل کر کوششیں کرنا ہیں۔ مہذب معاشروں میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے انہیں بیچا نہیں جاتا۔ کسی قوم کی غیرت و حمیت کی پہچان ان کے معاشرے میں ماں، بہن ، بیٹی کے نام سے ہوتی ہے مگر افسوس ہم اکیسویں صدی کے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں پستی کی سمت میں سفر کررہے ہیں۔ عافیہ کی واپسی کچھ مشکل نہیں ہے بس اس کے لئے غیرت مند قومی قیادت کی ضرورت ہے جس کی تلاش میں عافیہ کے ساتھ ساتھ پوری پاکستانی قوم بھی ہے۔ عافیہ کی زندگی یہی میرا ایمان ہے وہی اللہ عافیہ کو مکمل عافیت کے ساتھ بہت جلد اپنے گھر واپس لائے گا (انشاء اللہ)۔
عافیہ صدیقی 1990ء میں امریکہ پہلی مرتبہ سفر کیا اور ہو سٹن (ٹیکساس) میں اپنے بڑے بھائی محمد کے ساتھ رہنا شروع کیا ،1991میں انہیںبو سٹن میں میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) نے سکالر شپ دیا بلکہ انہوں نے گریجوائیشن کرنے کے لئے وظیفہ جیتا اور پھر اعزاز کے ساتھ ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے برنیڈیس یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ ایک اور ڈگری حاصل کی اور اسی یونیورسٹی سے نیوروسائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیمی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تبلیغ و دعوت میں بھی مصروف تھیں، نوئے کی دھائی میں جب بوسنیا میں بحران پیدا ہوا تو عافیہ صدیقی انسانی ہمدردی کے کاموں میں بھی متحرک ہوگئیں ۔بارہ سال امریکہ میں گزارنے کے بعد 2002 ء میں انہوں نے واپس پاکستان آنے کا پروگرام بنایا اس وقت ان کے ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے ۔یہ مارچ 2003ء کی بات ہے وہ اسلام آباد میں اپنے ایک انکل سے ملاقات کرنے کیلئے ایک ٹیکسی پر ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوئیں لیکن وہ اپنے انکل تک نہ پہنچ پائیں وہ پانچ سال تک غالب یا لاپتہ رہیں ،جس دن انہیں اغوا کیا گیا اس کے اگلے دن انکی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں انہیں خاموش رہنے کا کہا گیا بصورت دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ،2008 ء کے موسم سرما میں ایک برطانوی صحافی نے انکشاف کیا کہ عافیہ صدیقی کو افغانستان کے بگرام ائیر پورٹ پر قائم ایک امریکی عقوبت خانے میں قید کررکھا ہے اس انکشاف کے بعد شور شرابہ برپا ہوگیا، عافیہ کورہا کیا گیا وہ اپنے بیٹے احمد سے ملی پھر امریکی ایف بی آئی نے انہیں زیر تفتیش قرار دیکر گرفتار کیا اور امریکہ لے گئے ان پر مقدمہ چلایا گیا، فروری 2010میں انہیں سزا سنادی گئی ان پر کوئی دہشت گردی یا غیر قانونی سرگرمی ثابت نہ ہوسکی انہیں امریکی فوجی پر رائفل تاننے اور فائر کرنے کے الزامات کے تحت انہیں 86سال قید کی سزا سنادی گئی آجکل وہ فیڈرل میڈیکل سینٹر کارسویل فورت ورتھ ٹیکساس میں سزا کاٹ رہی ہیں۔
عافیہ کی گرفتاری پر ساری دنیا کے امن پسندوں نے اس وقت بھی صدائے احتجاج بلند کیا تھا اور آج بھی سراپا احتجاج ہیں ، انسانی حقوق کی امریکہ میں تنظیموں اور قانونی ماہرین نے بھی عافیہ کی کھل کر حمایت کی ۔ مگر اس ضمن میں امریکی حکومت نے ذرا سی بھی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے عافیہ پر مزید ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ۔اس مظلوم عافیہ کا قصور صرف اور صرف حق کا علم بلند کرنا ہی تھا ۔
عافیہ صدیقی کو امریکہ لے جا کر اس پرمقدمہ چلایا گیا اور یوں 23 ستمبر 2010ء میں نیو یارک کی عدالت سے اسے 86 سال کی سزا سنائی گئی اور اس وقت سے لے کر آج تک وہ امریکہ میں خرابی صحت کے باوجود قید تنہائی کی زندگی گزار رہی ہیں، اور دنیا بھر کی انسانی حقوق تنظیمیں اس کی رہائی کے لئے آواز اٹھارہی ہیں، پاکستان میں بھی عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں گاہے بگاہے کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی وقتاً فوقتاً ریلیاں نکالی جاتی رہیں اور عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ زوروشور سے کیا جاتا رہا ہے۔
عافیہ صدیقی کو انصاف دلانے کے لئے عافیہ موومنٹ کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ دنیا بھر کو بتایا جائے کہ عافیہ صدیقی جیسی تعلیم یافتہ خاتون کو کس طرح جرم ناحق کی سزا دی جارہی ہے، آج پاکستان میں بھی عوام کی ہمدردیاں عافیہ صدیقی کے ساتھ ہیں اس حوالے سے عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی کوششیں قابل ذکر ہیں جو اعلیٰ حکام کے ساتھ ساتھ انسانیت سے پیار کرنے والوں کی توجہ اس جانب مبذول کراتی رہتی ہیں کہ قوم کی ایک بیٹی امریکہ میں قید ہے۔ جس کی رہائی کے لئے ہم سب کو ایک آواز ہوکر امریکہ سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ اسے فوری طور پر رہا کرے۔
ہر آنے والے دن میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ بالآخر انہی سے مجبور ہوکر امریکہ کو اسے آزاد کرنا ہوگا کیونکہ سچ کو زیادہ دیر خاموش نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ سچائی سامنے آکر رہتی ہے اور آج کی سچائی یہی ہے کہ عافیہ صدیقی ایک ایسی پاکستانی ہے جس کی ناکردہ جرم کی خوفناک سزا دے کر دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ ’’سپر پاور‘‘ کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے والوں سے ہم اس طرح کا سلوک کرتے ہیں مگر وہ بھول جاتا ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔