کس سے منصفی چاہیں؟

Apr 20, 2019

ڈاکٹر فوزیہ تبسم

انصاف وہ یکساں نعرہ تھا جسے لگ بھگ بائیس سال پہلے ایک 44سالہ شخص جس نے چار برس پہلے چالیس برس کی عمر میں کرکٹ کی دنیا کا عالمی کپ اپنے وطن کے نام کیا تھا، وہ شخص اب سیاست کے میدان میں اُتر چکا تھا۔ اس آدمی کی باتیں اس وقت اسٹیبلشمنٹ اشرافیہ کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں چونکہ وہ آئیڈیل ازم کی باتیں کرتا تھا۔ آئیڈیل ازم میں رہنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ آئیڈلائز تو ہمیشہ آپ کو اپنی سوچ میں کوہِ ہمالیہ جیسے بلند خوابوں ہی کو کرنا چاہیے۔ لیکن خوابوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے شاید ایک حقیقی لیڈر کو زمینی حقائق اور رئیل ورلڈ سے بھی بالکل ماورا ہوکر بھی نہیں رہ جانا چاہیے۔ خیر وقت اپنی ایک خاص رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ وطن عزیز میں چند برس ہی میں فوجی بغاوت ہوگئی اور خان صاحب نے بہرحال کبھی بھی اس آمر سے ہاتھ نہیں ملایا اور اس کی کابینہ کا حصہ نہیں بنے۔ خان صاحب ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے نوجوانی ہی سے مغربی معاشرے اور اس کی قدروں کو بے حد نزدیک سے دیکھا ہوا تھا، محسوس تو کچھ یوں ہوتا تھا کہ خان صاحب جیسا لیڈر زمام اقتدار ہاتھ آتے ہی ملک عزیز پاکستان میں گوروں کے دیس جیسا انصاف، ڈسپلن، رفاہی معاشرہ اور بنیادی حقوق عوام تک ثمرات کی صورت پہنچانا شروع کردیں گے۔ بات صرف سوچ کی ہے جن پچھلے حکمرانوں کا نوحہ عوام اور خود خان صاحب پڑھتے رہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر نے کبھی غربت کا مزہ نہ چکھا تھا اور پاکستان کا ایک اشرافیہ طبقہ تھا جو مزدوروں اور ہاریوں کا خون چوس چوس کر ایوانِ اقتدار کی پرتعیش بال کونیوں تک پہنچ چکا تھا۔ مگر خان صاحب تو روزِ اول سے انصاف کا نعرہ لگاتے رہے۔ غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کی بات کرتے رہے۔ مثالی مغربی ریاستوں کی ماں جیسی حکومتوں کا حوالہ دیتے رہے۔ قوم بھی شاید اس مخمصے کا شکار ہوگئی جیسے ملک کے مسائل کرکٹ کا کھیل ہے۔ پاکستان میلبرن کا ایک کرکٹ اسٹیڈیم ہے اور اس مسائل کے کھیل کے فائنل میچ میں بس خان صاحب کرکٹ گرائونڈ کے درمیانی حصے میں اپنی مخصوص کیپ پہننے کی بجائے اس بار اگست 2018 میں وزارت عظمیٰ والی شیروانی پہنیں گے تو قوم کے گوناگوں مسائل کسی الف لیلوی داستان کی طرح چھومنتر ہوجائیں گے۔ خان صاحب نے قوم کو یہ حسیں سپنے دکھائے کہ اگر اُوپر کی قیادت میں ایماندار اور سچی نیت والا شخص آجائے تو پورا ملک جھٹ سے ایماندار اور سچی نیت والا ہوجائے گا۔ چونکہ اس عالم گیتی نے اس سے قبل سینکڑوں، ہزاروں ہادی پیامبر، لیڈران، فلسفی، دانشور، مفکرین دیکھے ہیں۔ مگر مسائل کا مکمل تدارک آج تک عالم انسانیت کے لیے ایک دیرینہ خواب ہی کی مانند ہے۔ خان صاحب نے کرپشن کا نعرہ بھی خوب لگایا۔ مگر کرپشن بھی ایک ایسا نعرہ ہے جس کی چھت تلے وطن عزیز کا ہر چھوٹا بڑا ادارہ اور اس کے نچلے سے لے کر بالاترین عہدوں پر فائز اکثر افسران اس دلدل میں دھنسے پڑے ہیں۔
الغرض یہ کہ سب عوامل اپنی جگہ پر مگر نبی کریمؐ کا فرمانِ عالیشان نظروں کے سامنے جھلملاتا ہے کہ ’’خیرالناس من ینفع الناس‘‘ ’’لوگوں میں سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔‘‘ معلوم تو کچھ یوں ہوتا ہے کہ طویل عرصے کی بازی گرانہ طبیعت اور کھیل میں مزاحمتی انداز لیے ہوئے پھر طویل عرصہ تک اپوزیشن کی تنقیدی سیاست نے خان صاحب میں ایک خاص قسم کی منفیت پیدا کردی تھی اور اب وہ تنقید، تنقید اور صرف تنقید ہی کو جانتے تھے۔ ایک مشہور اور سادہ فہم بات ہے کہ گرانا آسان اور بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیڑے نکالنا آسان اور کچھ کرکے دکھانا مشکل ہوتا ہے۔ خان صاحب بھی شاید وقت کے ایسے گرداب کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس درحقیقت حکومت میں آنے کے بعد کا کوئی ہوم ورک موجود تھا ہی نہیں۔ حکومت آج بھی اپوزیشن کے انداز میں روزپریس کانفرنس کے کرپشن، کرپشن، کرپشن کا رونا رو رہی ہے۔ اپنے عوام کے لیے آسانی پیدا کرنا عظیم قائد اور حکمران کا بنیادی شعار ہونا چاہیے لیکن خان صاحب کے آٹھ ماہ کے اقتدار نے عوام کی روزمرہ کی زندگی اجیرن کرڈالی ہے۔ آئے روز ایک سے ایک مہنگائی بم اور پریشانی عوام کے سروں پر مسلط کردی جاتی ہے اور جب سوال کرو تو کہہ دیا جاتا ہے پچھلی حکومت کی میگاکرپشن کی وجہ سے یہ مہنگائی مجبوراً کرنا پڑ رہی ہے۔اب تو اس کے بارے میں بس اتنا ہی کہنے کو جی چاہتا ہے …ع
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟
جنہیں مسیحا اور منصف سمجھا تھا وہ درحقیقت عوام کے دکھوں میں اضافہ کا سبب بن چکے ہیں۔

مزیدخبریں