یہ قصۂ پارینہ نہیں، عصر حاضر ہی کا واقعہ ہے اس واقعہ سے ملک کے لاکھوں خاندانوں کے نا و نفقہ کا سنگین معاملہ وابستہ ہے جس کی صدائے بازگشت سابقہ حکمرانوں کے چل چلائو کے دور میں عدالت عظمیٰ میں سنی گئی۔ عدالت عظمیٰ نے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوٹ کے پنشنرز اور کرپشن کیس کا ازخود نوٹس لیا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران میں سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے تھے کہ ای او بی آئی میں بہت کرپشن ہو رہی ہے۔ لاکھوں پنشنرز خاندانوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ یہ ادارہ فنڈ آگے دینے کا مجاز نہیں جبکہ پنشنرز کو دو وقت کی روٹی تک نہیں مل رہی۔ اس موقعہ پر عدالت نے اٹارنی جنرل کوادارے کے فنڈز سے ایک ارب روپے بیت المال اور پچاس کروڑ روپے سیلاب زدگان کو دی گئی رقم واپس لینے کی ہدایت کی۔ ساتھ ہی پنشن میںاضافہ کرنے کو کہا۔ اسکے ٹھیک ایک ماہ بعد /5 مارچ 2018ء کو اسی کیس کی سماعت ہوئی تو فاضل عدالت نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ ایک ماہ قبل انکی طرف سے دی گئی ہدایات صدا بصحرا ہوئی ہیں۔ ان پرکوئی عمل نہیں کیا گیا۔ عدالت عالیہ کے جس بنچ نے اس کیس کی سماعت کی وہ سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین فاضل ججوں سے عبارت تھا کہ عوام کو فائدہ دینے کے علاوہ حکومت کے پاس ہر کام کرنے کا وقت ہے۔ غریب پنشنرز کے ساتھ حکومت کا رویہ انتہائی غیر مناسب ہے۔ مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید نے اسی کیس کی سماعت پر /17 اپریل 2018ء میں کہا کہ ای او بی آئی کے پنشنروں کیلئے 5250 روپے پنشن قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے ای او آئی بی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ان بزرگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ پنشن کافی ہے؟ پہلے انسانی حقوق کے معاملے کو حل کیا جائیگا۔ قانونی نکات کا جائزہ بعدمیں لیں گے۔ اسکے بعد ملکی حالات نے کروٹ بدلی۔ سابقہ دورحکومت میں سیاست میں سرمایہ کاری کے ذریعے جمہوری اداروں میں اپنی جگہ بنانے والی بزعم خود ایلیٹ کلاس نے ای او بی آئی کے پنشنروں انکے زیر کفالت کروڑوں افراد کی بھوک ننگ کو دور کرنے کی طرف اسکے باوجود کوئی توجہ نہ دی کہ عدالت عالیہ کی طرف سے انتہائی دلسوزی کے ساتھ اربابِ اقتدار کی توجہ دلا کر کہا گیا تھاکہ روٹی سے ترستے پنشنروں کی پنشن میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ وہ عزت کی روٹی کھا سکیں مگر ماضی کی اس ایلیٹ کلاس نے جو کچھ بھی کیا ، اپنے اور اپنے اہل خاندان کو مستقبل کیلئے فکر معاش سے آزاد کرنے کی خاطر کیا، جب عام انتخابات کے نتائج نے سیاسی بساط ہی الٹ دی تو اس کی جگہ میدانِ سیاست کے نئے سرمایہ کاروں نے لے لی۔ سوچا جانے لگا کہ اب ای او بی آئی کے پنشنروں کیلئے جو پکار عدالت عظمیٰ کی طرف سے بلند کی گئی تھی ، ایوان اقتدار کے نئے مکین اسکی پوری طرح لاج رکھیں گے۔ ایسے میں ایک موقر قومی سطح کے اردو اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی جس سے ای او بی آئی کے پنشنروں کے دلوں میں یہ موہوم ہی امید نے سر اٹھایا کہ ہو سکتا ہے کہ آنیوالے پنشنروں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کرنے کی نسبت سے انکی پنشن میں خاطر خواہ اضافے کر دینگے۔ ایسی امید کا چراغ پنشنروں کے دلوں میں اس وقت روشن ہوا جب /10 نومبر 2018ء کو وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے سمندر پار پاکستانیز سید ذوالفقار بخاری المعروف زلفی بخاری نے کا یہ بیان منظر عام پر آیا کہ سابق ادوار میں ای او بی آئی اور او پی ایف سی اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔وائٹ پیپرز لانے کے بعد کیسز نیب کو بھجوائوں گا۔ سابق ادوار میں ای او بی آئی میں ورکرز کے فنڈز سے وزیروں نے اپنے بیٹوں، داماد اور قریبی رشتہ داروں سے کوڑیوں کے پلاٹ اربوں روپے میں خریدے اور اربوں روپے کی پراپرٹی کروڑوں میں فروخت کی۔ اس میں ایک سابق وزیراعظم بھی ملوث ہیں۔ او بی ایف ہائوسنگ سوسائٹی زون فائیو میں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی۔ ان دونوں معاملات پر الگ الگ ’’وائٹ پیپرز‘‘ تیار کر رہا ہوں۔ ای او بی آئی والا وائٹ پیپر حکومت کے پہلے سو دنوں کے اندر جبکہ او بی ایف والا چند ہفتے بعد جاری کیا جائیگا جس میں کالے کارناموں کے ساتھ نام بھی افشاں کروں گا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی کہا کہ /14 نومبر کو ای او بی آئی کی پنشن 5 ہزار سے بڑھا کر دس ہزار روپے ماہانہ کر دی جائیگی۔ مگر حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ چند ہی یوم بعد رہنما کی طرف سے یہ اعلان باسموم بن کر لاکھوں پنشنرز خاندانوں کے امیدوں کے دلوں کو بجھا دینے کا باعث بنا کہ ای او بی آئی کے پنشنروں کی پنشن میں صرف ساڑھے بارہ سو روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پنشن 5250 کی بجائے 6500 روپے ماہوار ہو گی۔ اگر یہ کہا جائے تو ای او بی آئی کی پنشن میں یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں۔ درحقیقت سرمایہ کاری کی بنیاد پر معاشرہ کے مخصوص شعبوں کو اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر زیر دام لانے والوں سے انسانی فلاح و بہبود اور معاشرہ کی تعمیروترقی کی امیدیں رکھنا محض سراب ہے۔ بدقسمتی سے ارض وطن کے کروڑوں محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے بے بس و بے کس اور بے یارورمددگار عوام ایسے مخصوص طبقے کے کھوکھلے نعروں سے دھوکہ پہ دھوکہ کھاتے چلے آرہے ہیں۔ قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ ای او بی آئی کے پنشنروں کی برسہابرس کی ملازمت کے تنخواہوں سے ایک فارمولا کے تحت رقم کٹ کر ای او بی آئی کے فنڈز میں جمع ہوتی رہی اور ہو رہی ہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اپنی ہی جمع شدہ کمائی کی رقم سے وہ پنشن لیتے ہیں اور اسی پنشن میں متعدبہ اضافے سے کسی بھی دور کی حکومت پر اس کا بوجھ نہیں پڑتا۔ بلکہ پنشنروں کے جمع کردہ اربوں کھربوں کے فنڈز سے حکومت کو منافع حاصل ہوتا رہتا ہے۔ کاش ارباب اقتدار کی کوئی پس پردہ کچن کابینہ تک رسائی رکھنے کا دعویدار ’’تھنکرز فورم‘‘ یا ’’تھنک ٹینک‘‘ کا کوئی ایک شہ دماغ حقیقی صاحب اختیار کو ایسی حقیقتوںسے آگاہ کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوتا؟ تو ای او بی آئی کے پنشنرز کی باعزت روٹی کے حصول کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
پنشنرز، اپنی کٹوتی ، اپنی رقوم اپنی پنشن ؟
Apr 20, 2019