وہ اس گائوں میں اپنی این جی او کے اگلے پروجیکٹ کے سلسلے میں گئی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس شادی کے فنکشن میں شریک تھی۔ شدید گرمی تھی اور پسینے کے باعث اس کا میک اپ پگھل رہا تھا۔ دیوار سے چپکے اوپلوں کی بو سے اس کا دماغ بند ہو رہا تھا۔ اچانک اس نے سامنے سے آتی چمکیلے بھڑکیلے کپڑوں میں ملبوس ان دیہی عورتوں کودیکھا…اس کی آنکھوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی تمسخر ابھر آیا۔ ہم ان گنوار عورتوں کو کیا بدلیں گے جو ایک ہی دن میں ساتوں رنگ کے کپڑے پہن کر آ جاتی ہیں۔ نام کی جگہ انگوٹھا لگاتی ہیں…کہاں ہم جیسی ورکنگ ویمن اور کہاں یہ عورتیں!! کچھ دیر بعد اس نے اپنی رٹی رٹائی تقریر پڑھی اور پھر وہاں سے چلی آئی۔
اگلے دن اس کی آنکھ ایک انجانی آہٹ سے کھل گئی۔ مٹی پر نمایاں قدموں کے نشانوں کا تعاقب کرتے ہوئے وہ کھیتوں تک پہنچ گئی۔ وہ عورتیں جھک کر پنڈلی تک گہرے پانی میں اپنے پائوں ڈالے دھان کی پنیری کے پودے لگانے میںمصروف تھیں…وہاں پر موجود ہر ایک عورت کا سفر…زمین کو کھیتی کے لیے تیار کرنا، بیج بونا، پودوں کو اکھاڑ کر دوسری جگہ پر لگانا، کاٹی گئی فصل کو کھیت سے گھر تک ڈھونا ، اور گھر پر کھانا پکانا…گویا کہ اس کٹھن سفر میں ایک پوری ریاست کھڑی کردینا…اسکی آنکھوں کے سامنے تھا…اس وقت اس کا دل چاہا کہ ایک دن پہلے پیڈی کیور کئے اپنے پائوں کی پرواہ کئے بغیر کوئی سترنگی لبادہ اوڑھ کر اس پنڈلی تک گہرے پانی میں اتر جائے اور تیز دھوپ میں کمر تک جھک کرکام کرتی اس ورکنگ وومن کو قریب سے دیکھے۔