پنجاب میں جہاں آبادی زیادہ ہے وہاں حکومت نے صوبے کے عوام کی آسانی کے لیے جاری لاک ڈائون میں کم رسک والے شعبوں کوکرونا وائرس کی روک تھام سے متعلق ایس او پیز کے تحت فوری طور پر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں چیف سیکرٹری نے کہا کہ لاک ڈائون کے باعث ہنر مند اور مزدور طبقے کو درپیش مالی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبے میںکم رسک والے شعبوں کو فوری طور پر کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن میں کیمیکلز انڈسٹری، آئی ٹی کمپنیاں، پلمبر، کارپینٹر، الیکٹریشن، ٹیلر کی دکانیں (سٹینڈ الون)، ویٹرنری سروسز، رئیل سٹیٹ اور پراپرٹی ڈیلروں کے دفاتر شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سٹیشنری و کتب کی دکانیں، شیشہ سازی کے یونٹس، پیپر اینڈ پیکیجنگ اور پودوں کی نرسریاں پابندی سے مستثنیٰ ہونگی۔ اسی طرح شعبہ معدنیات، عمارات (گرے سٹرکچر) اور سڑکوں کی تعمیر سے منسلک کاموں (تعمیرات کے مقامات، اینٹوں کے بھٹوں، بچومن پلانٹس وغیرہ) کی اجازت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آرکیٹیکٹس اور انجینئرز کی سروسز اور سڑکوں کی تعمیرات بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جن شعبوں اورصنعتوں کو پہلے ہی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جا چکا ہے وہ طے کئے گئے ایس او پیز کے مطابق کام کرتے رہیں گے اورکھولے جانیوالے شعبے اور دکانیں بھی کرونا وائرس سے بچائو سے متعلق احتیا طی تدابیر پر عمل کرنے کے پابند ہونگے۔ دفاتر اور دکانوں پر ماسک، سینیٹائزر کی دستیابی اور دیگر ہدایات پر عملدرآمد کرایا جائے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی برقرار رہے گی، لیبر اور دیگر افراد کو آمدورفت کیلئے پرائیویٹ ذریعہ کا انتظام کرنا ہوگا۔ چیف سیکرٹری نے تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور آرپی اوز کو ہدایت کی کہ قانون شکنی کی مرتکب انڈسٹریز کو وارننگ کے بعد مقامی چیمبر آف کامرس سے رابطہ کریں اور عدم تعاون کی صورت میں انہیں بند کر دیں۔ حکمنامے کے مطابق درزی، الیکٹریشن، پلمبر کی دکانیں سٹینڈ الون کھل سکیں گی اور انکے ساتھ جڑی دوسری چین کو کسی صورت نہیں کھولا جا سکتا۔ اسی طرح تعمیرات میں صرف عمارات کے گرے سٹرکچر سے منسلک شعبے کام کر سکیں گے۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے اپنے ڈیوٹی کارڈ ساتھ رکھنے کے پابند ہونگے۔ایک بڑی اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اس بار تمام پولیس فورس کو لاک ڈائون سے متعلق ہدایات کا اردو ترجمہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ اب عوام کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور بنا ضرورت باہر نکلنے کی بجائے دنیاوی محفلیں کچھ ہفتوں کے لیے بھولنے کی کوشش کرنا ہے۔ رمضان شروع ہونے والاہے ۔چلیں اس لاک ڈاون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گھروں کو اللہ کی عبادت سے پر نور بنائیں۔اس وقت ساری دنیا کا مسئلہ کورنا وائرس بن چکا ہے ۔اب تک اس وائر س کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد لاکھ سے اوپر جا پہنچی ہے اور کوئی نہیں بتاسکتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب تک یہ وائرس انسانی جانوں کو نگلتا رہے گا ۔دعوے تو بہت سامنے آرہے ہیں لیکن کب اس کی و یکسین مارکیٹ میں دستیاب ہوگی اس کے بارے ابھی کچھ کہنا بہت مشکل ہے ۔لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس وائرس کے دنیا کی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہونے جارہے ہیں ۔پاکستانی معیشت جو پہلے ہی تنکوں کے سہارے کھڑی ہے اس کی حالت ا س لاک ڈاون کے دوران اور پتلی ہوچکی ہے ۔اب دنیا بھر میں تو لاک ڈاون چل رہا ہے۔لیکن پاکستانی حکومت نے لاک ڈاون میں کافی نرمی کردی ہے ۔لاک ڈاون کے دوران پاکستانیوں نے ایک طرف اپنے اردگرد بسنے والے غریب لوگوں کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے وہیں بہت سے لوگوں نے اپنی زندہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ہزار قسم کے لطیفے بھی تیار کیے ۔سب سے زیادہ لطیفے بیگمات کے حوالے سے بنائے گئے اور سب سے زیادہ بیگمات نے ہی برداشت کا مظاہرہ کیا اور گھروں کی رونقیں بحال رکھیں۔خیر لاک ڈاون کے دوران بھی ہماری قوم نے گھروں میں رکنا گورانہ کیا۔کوئی بیماری کا بہانہ بنا کے گھر سے لاک ڈاون دیکھنے نکل پڑا تو کسی نے اپنی کسی مری نانی اماںکو ایک بار پھر سے مار کے پولیس سے شہر گھومنے کی اجازت طلب کی ۔ایک پولیس والے نے بتایا کہ اللہ خیر کرے لگتا ہے آج شہر میں بہت سی اموات ہوئی ہیں کیونکہ ہم صبح سے جسے بھی ناکے پر روکتے ہیں وہ یہی کہہ رہا ہے کہ فوتگی ہوئی ہے ۔دوسری طرف شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گھر سے نکلتے کہیں آتے جاتے کسی کام کو کرتے ہوئے اور لوگوں سے ملتے ملاتے حفظان صحت کے اصولوں کو مدِنظر رکھنا نہ بھولیں ۔اگر ہماری قوم نے ذمہ داری کا عملی مظاہرہ کیا اور کورنا وائرس کے مزید کیس سامنے نہ آئے تو ہم دیکھیں گے کہ حکومت بہت جلد سارے کارخانے بازار،شاپنگ مالز اور دوسرے مقامات کھولنے کا اعلان کر دے گی ۔