کلکتہ و کابل میں بچھی ہیں صف ماتم

کمزور ایمان مسلمانوں کی غداری نے ہزارسالہ مغل سلطنت میں مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر ڈالا ۔ انگریز حکمرانوں کے ظالمانہ اور ہتک آمیز سلوک نے نئی نسل میں انتقام کے جذبات پیدا کر دیے ایسے میں سرسید نے مسلم امہ کی رہنمائی کا فریضہ بڑی حکمت و فراست سے اد اکیا ۔سرسید کا اس نتیجے پر پہنچنا بجا تھا کہ برطانوی سماج کے سامنے عسکری و مزاحمتی تحریکیں کامیاب ہونا محال ہے لہٰذا مسلم قوم کو مفاہمتی طرز عمل کے ذریعے دوبارہ کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔ سرسید اور ان کے رفقاء کی تعلیمی تحریک نے برصغیر میں مسلمانوں کے لئے بہت جلد آگاہی اور خود اعتمادی کے دروزاے کھول دیے ۔ بڑے محدو د عرصے میں ہند کے گوشہ گوشہ میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کے گروہ نظر آنے لگے یہ نوجوان قومی اقدار اور ملی غیرت کے امین ہونے کے ساتھ دل میں حریت کی تڑپ رکھتے تھے ۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی مسلمانان ہند کے لئے علم و شعور کی نئی شعاعیں نمودار ہونے لگیں ۔سرسید کی تیار کردہ علم و ہنر سے لیس ایک معقول فصل آزادی کی انگڑائی لیتی نظر آنے لگی ۔ انہیں عالی مقام انقلاب آفریں شخصیات میں حضرت علامہ محمد اقبال سب سے مختلف منفرد انداز فکر و بیاں سے پورے برصغیر کے مسلمانوں کے دل گرمانے اور روح کو تڑپانے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ ملت اسلامیہ کو ایک ایسی منزل کی نشاندہی کر گئے جو آگے چل کر عالم اسلام کی سب سے بڑی آزادمملکت اور واحد اسلامی جوہری طاقت کی شکل اختیار کر گئی ۔ علامہ اقبال کا سب سے پہلا کارنامہ یہ ہے کہ اندھیروں اور بداعمالیوں میں ڈوبی قوم کو امید اور حرکت کا نہ صر ف پیغام دیا بلکہ تاریخ اسلام سے اسلاف کے زریں ادوار کی عظمت و جلال شوکت و جہاں داری کو اس مخصوص انداز سے پیش کیا کہ جذبوں اور ولولوں کو جہادی شکل دیتے ہوئے اللہ کے سوئے ہوئے شیروں کو دنیا کی امامت کے لئے ایک بار تیار ہونے کا سبق پھرازبرکرایا۔ قوم کا بچہ بچہ شجاعت امانت و صداقت کی راہوں کا متلاشی نظر آیا ۔ علامہ اقبال نے مسلم ہند کو بیدار ہی نہیں کیا بلکہ منزل کا تصور بھی عطا فرمایا ۔ کلام اقبال میں یہ خصوصیت ہے کہ حصول آزادی کی تڑپ کووالہانہ عشق سے منسلک کردیا ۔عشق فقر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ۔ علامہ فرماتے ہیں
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے
علامہ نے قوم میں عرفان نفس اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ عظیم تاریخ کے وارث اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہندو کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے ۔ منتشر قوم کو یکجا کرتے ہوئے علیحد ہ وطن کا تصور اور ستاروں پر کمند ڈالنے کا عزم دیا آپ مستقبل شناس صلاحیتوں کے مالک تھے جن کی نظر یں آنے والے زمانوں پر ہوتی ہیں ۔ علامہ محمد اقبال کی دانش و فراصت کے نقوش صدیوں پر محیط ہیں آپ نے اپنی قوم کو عظمت رفتہ سے روشناس کرانے کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن کو کھنگالتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ کمال مہارت سے اسلام اور مغربی تہذیب کا موازنہ کرکے نسل نو کو اسلام کا اعلیٰ پیغام ازبر کرایا ۔ علامہ آگے بڑھ کر وار کرتے دکھائی دیتے ہیں اہل مغرب سے فرماتے ہیں
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا نہ پائیدار ہوگا
نظر کو خیرہ کرتی ہے تہذیب حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
علامہ نے مغرب کی فرعونیت پر ضرب لگاتے ہوئے اپنی قوم کا اعتماد بحال کرنے کا سامان کیا ۔ احیائے اسلام کے ثمرات کے مقابلے میں مغربی تہذیب ایک کھوکھلی ، ظاہری اور نمائشی جو جز وقتی ہے جبکہ اسلام دائمی بقا کا پیغام ہے ۔ حضرت علامہ نے مسلمانوں میں ایک ملت کے تصور کو عام کیا ان کی شاعری میں مسلم ملت کا درد نمایاں جھلکتا ہے وہ جہاد کے علمبردار تھے یقینا ان کے کلام نے دنیا کے مسلمانوں میں جہادی خصوصیات اور جذبے پروان چڑھائے جو کسی ایک علاقہ اور زمانہ تک محدود نہیں۔ جب ہم اقرار کرتے ہیں تو پاکستان کی آزادی علامہ اقبال کے تصور کا شاہکار ہے تو پاکستان کے بعد آزاد ہونے والی مشرقی وسطیٰ کی ریاستوں اور آج وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی میں بھی اقبال دکھائی دیتا ہے ۔ انقلاب ایران کے رہبر تسلیم کرتے ہیں کہ انقلاب میں کلام اقبال کا بڑا حصہ ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پورا عالم اسلام اقبال سے متاثر ہے بلکہ تمام بے کس مظلوم مخلوق کے لئے پیغام حیات ہے ۔ علامہ نے خواتین کے حقوق پر بھی خاصی توجہ دی ۔
حضرت علامہ نے فلسفہ خودی کا جو درس مسلم قوم کو دیا آپ نے اپنی زندگی میں بھی خودی ، خود شناسی کا عملی مظاہرہ کیا جناب مجید نظامی مرحوم کہتے ہیں کہ اگر اقبال نہ ہوتے تو پاکستان نہ ہوتا اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ علامہ اقبال مسلمانان ہند کی قیادت قائد اعظم کو نہ دیتے تو پاکستان نہ بنتا ۔
(جاری)

ای پیپر دی نیشن